ہفتہ 11 شوال 1445 - 20 اپریل 2024
اردو

نكاح ميں ماموں كا ولى بننا

98546

تاریخ اشاعت : 02-09-2009

مشاہدات : 8255

سوال

ميرى شادى كو سات برس سے زائد ہو چكے ہيں اور ميرے تين بچے بھى ہيں، ميرا سوال يہ ہے كہ:
ميرے بچپن سے ہي ميرے والدين عليحدہ ہيں، ميں نے اپنے مرحوم والد كو زندگى ميں صرف ايك بار ہى ديكھا ہے، اور انہوں نے دوسرے شہر جا كر شادى كر لى تھى، اور ہمارے ان كے ساتھ كوئى تعلقات نہ تھے، اس ليے جب ميرى شادى ہوئى توم يرے ماموں ميرے ولى بنے تھے، اور ميرا بھائى بھى موجود تھا اس نے اس پر كوئى اعتراض نہيں كيا.
مجھے علم ہوا كہ يہ جائز نہ تھا، كيوكہ اگر والد نہ ہو تو پھر ولى اس كے بعد والا بنتا ہے، اب مجھے علم نہيں كہ آيا ميرى يہ شادى صحيح ہے يا باطل، اللہ نہ كرے اگر باطل ہے تو اب مجھے كيا كرنا چاہيے ميرے تو اب تين بچے بھى ہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

شادى ميں ماموں ولى نہيں بن سكتا؛ كيونكہ ولى عصبہ كے ساتھ مخصوص ہے، اور عصبہ مرد ميں باپ پھر دادا، اور پھر بيٹا اور پھر بھائى، اور پھر بھتيجا، اور پھر چچا الخ شامل ہوتے ہيں.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" قريبى رشتہ داروں ميں سے عصبہ مرد كے علاوہ كسى اور كو مثلا ماں جايا بھائى اور ماموں، اور ماں كا چچا، اور ماں كا نانا وغيرہ كو ولايت حاصل نہيں ہوتى، امام احمد نے يہ كئى ايك مقام پر بيان كيا ہے، اور امام شافعى كا قول بھى يہى ہے، اور امام ابو حنيفہ سے بھى ايك روايت يہى مروى ہے " انتہى

ديكھيں: المغنى ( 7 / 13 ).

دوم:

كسى دوسرے شخص كى بجائے لڑكى كے باپ كو اپنى بيٹى كى شادى كرنے كا زيادہ حق ہے، اور اولاد كى تربيت ميں كمى و كوتاہى كرنے سے باپ كى ولايت كا حق ساقط نہيں ہو جاتا، اور اسى طرح باپ كے غائب ہونے سے بھى اس كى ولايت ساقط نہيں ہو گى، ہاں والد اس طرح غائب اور منقطع ہو كہ اس تك پہنچنا اور اس سے رابطہ كرنا مشكل ہو، تو اس حالت ميں ولايت منتقل ہو كر اس كے بعد والے ولى ميں آ جائيگى.

اس بنا پر آپ كو چاہيے كہ اپنے والد كو اس رشتہ كے متعلق بتاتے، تا كہ وہ آپ كے نكاح كى ذمہ دارى پورى كرتا، يا پھر كسى دوسرے شخص كو اپنا وكيل بناتا جو آپ كے نكاح كى ذمہ دارى پورى كرتا، اور اگر وہ انكار كر ديتا اور رشتہ بھى برابرى اور كفؤ والا تھا تو يہ ولايت اس كے بعد والے ولى ميں منتقل ہو جاتى، اور وہ دادا ہے اگر موجود تھا تو، وگرنہ ولايت بھائى ميں منتقل ہو جاتى اگر وہ بالغ تھا، اور اگر عصبہ مرد كوئى نہيں تھا تو پھر يہ ولايت قاضى ميں منتقل ہو جائيگى.

سوم:

اوپر جو كچھ بيان ہوا ہے اس كى بنا پر آپ كا نكاح بغير ولى كے ہوا ہے، اور جمہور علماء كے ہاں ولى كے بغير نكاح صحيح نہيں، اور امام ابو حنيفہ كے ہاں صحيح ہے.

ليكن احاديث كى روشنى ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے فرمان كے مطابق ولى كے بغير نكاح صحيح نہيں.

اس بنا پر اگر آپ كے ملك ميں عدالتى اور قاضيوں كا نظام حنفى مسلك كے مطابق ہے تو پھر ولى كے بغير نكاح صحيح ہے، اور يہ نكاح چلےگا، اور نہيں ٹوٹتا.

ليكن حديث كى رو سے يہ نكاح باطل ہے، كيونكہ ولى كے بغير ہوا ہے.

اور اگر آپ كے ہاں قاضيوں كا نظام نہيں ہے تو پھر يہ نكاح لغو اور ختم ہے، پھر اگر آپ دونوں ايك دوسرے كو چاہتے ہيں تو ولى كى موجودگى ميں نكاح كى تجديد كر ليں.

ابن قدامہ رحمہ اللہ نے ولى كے بغير نكاح صحيح نہ ہونے كا فيصلہ كرنے كے بعد كہا ہے:

" اگر حاكم اس عقد نكاح كے صحيح ہونے كا فيصلہ كر دے تو اس نكاح كو توڑنا جائز نہيں، كيونكہ يہ اس مسئلہ ميں اختلاف ہے، اور اس سلسلہ ميں وارد شدہ احاديث ميں تاويل كرنا ممكن ہے، بعض اہل علم نے اسے ضعيف قرار ديا ہے " انتہى بتصرف.

ديكھيں: المغنى ( 7 / 6 ).

اور شيخ محمد بن ابراہيم رحمہ اللہ درج ذيل مسئلہ دريافت كيا گيا:

ايك لڑكى كى شادى اس كے ماموں نے كر دى تو كيا يہ صحيح ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" ولى نہ ہونے كى بنا پر يہ عقد نكاح صحيح نہيں، كيونك عقد نكاح ميں ولى كى شرط ہے، اور ماموں نكاح ميں ولى نہيں ہوتا، اس ليے جب ولى ہى مفقود ہو تو نكاح فاسد ہے، جمہور اہل علم كا قول يہى ہے، اور مذہب ميں مشہور بھى يہى ہے، انہوں نے درج ذيل حديث سے استدلال كيا ہے:

ابو موسى اشعرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ولى كے بغير نكاح نہيں "

اسے پانچوں نے روايت كيا ہے اور ابن مدينى نے اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس عورت نے بھى ولى كى اجازت كے بغير اپنا نكاح خود كيا تو اس كا نكاح باطل ہے، باطل ہے، باطل ہے، اور اگر اس كے ساتھ دخول ہو جائے تو اس كى شرمگاہ حلال كرنے كى وجہ سے اسے پورا مہر دينا ہو گا، اور اگر وہ جھگڑا كريں تو جس كا ولى كوئى نہيں اس كا سلطان يعنى حكمران ولى ہے "

اسے احمد اور ابو داود اور ترمذى نے روايت كيا اور صحيح كہا ہے.

اور اگر دھوكہ كا دعوى ہو ( يعنى خاوند دعوى كرے كہ اسے دھوكہ ديا گيا ہے ) تو اس دعوى كو سننے ميں كوئى حرج نہيں، اور اگر وہ دونوں ايك دوسرے كو چاہتے اور نكاح قائم ركھنا چاہتے ہيں تو ان كے نكاح كى تجديد كر دى جائيگى، اور وہ عدت كى محتاج نہيں، كيونكہ پانى اسى كا ہے.

وگرنہ ( يعنى اگر وہ ايك دوسرے كو نہ چاہتے ہوں ) ان ميں عليحدگى كرا دى جائيگى، اور خاوند كو چاہيے كہ وہ اسے طلاق دے، كيونكہ عقد فاسد طلاق كا محتاج ہوتا ہے.

اور اگر وہ طلاق دينے سے انكار كر دے تو حاكم اس عقد نكاح كو فسخ كر ديگا " انتہى

ديكھيں: فتاوى الشيخ محمد بن ابراہيم ( 10 / 73 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب