اتوار 3 ربیع الثانی 1446 - 6 اکتوبر 2024
اردو

راہِ راست پر آنے کے بعد ایمان کمزور ہو گیا اور کئی دنوں تک نمازیں نہیں پڑھیں

سوال

میرا ایک مسئلہ ہے اور ساتھ میں سوال بھی ہے کہ میں کئی مہینوں سے دینی تعلیمات پر پابندی کے ساتھ عمل پیرا ہوں، لیکن وقت کے گزرنے کے ساتھ ہی میں سست ہو جاتا ہوں، مجھے سستی کی کوئی وجہ سمجھ میں بھی نہیں آتی، بہ تدریج کوتاہی اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ میں کبھی کبھار نمازیں بھی چھوڑ دیتا ہوں، لیکن الحمد للہ میری کوشش ہوتی ہے کہ میں گناہوں میں ملوث نہ ہوں، تاہم مجھ سے نمازیں چھوٹ جاتی ہیں، یا تو نیند کی وجہ سے یا پھر میں گھر سے باہر ہوتا ہوں، کچھ دن تو پابندی کرتا ہوں لیکن پھر سستی ہونا شروع ہو جاتی ہے، مجھے بتلائیں کہ میں نمازوں کی پابندی کیسے کروں؟ مجھے لگتا ہے کہ نمازوں کے حوالے سے مجھ میں کوئی مسئلہ ہے اور وہ مسئلہ ناقابل حل ہے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

محترم بھائی اللہ تعالی کا شکر ادا کریں کہ اللہ تعالی نے آپ کو گناہوں سے توبہ کر کے راہ راست پر پابندی کے ساتھ گامزن رہنے کی توفیق دی ہے، پھر یہ توبہ موت سے پہلے ہے اس لیے اللہ تعالی کا شکر مزید بڑھ چڑھ کر کرنا چاہیے اور اسی شکر کا تقاضا ہے کہ آپ نیکی اور اطاعت کے لیے خوب محنت کریں۔

سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : (نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اتنا لمبا قیام کیا کہ آپ کے دونوں قدم سوج گئے ، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا گیا: اللہ تعالی نے تو آپ کی گزشتہ اور پیوستہ تمام لغزشوں کو معاف کر دیا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تو کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ کیفیت ہے تو آپ کس طرح اللہ تعالی کی نعمتوں کے مقابلے میں برے اعمال کرتے ہیں؟ پھر راہ راست پر کافی آگے نکل جانے کے بعد دوبارہ پھر سے شروع میں کیسے پہنچ جاتے ہیں؟ کتنا ہی اچھا ہو گا کہ آپ راہ راست پر گامزن رہیں، لیکن آپ تو انحراف اور کجروی کا شکار ہو گئے ہیں، حالانکہ اللہ تعالی نے آپ پر راہ راست پر چلنے کا انعام کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تو ایسی حالت اور کیفیت سے پناہ مانگا کرتے تھے۔

جیسے کہ صحیح مسلم: (1343) میں سیدنا عبد اللہ بن سرجس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جس وقت سفر کرتے تو پناہ مانگتے:   [اَللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوْذُ بِكَ] مِنْ وَعْثَاءِ السَّفَرِ وَكَآبَةِ الْمُنْقَلَبِ ، وَالْحَوْرِ بَعْدَ الْكَوْنِ ، وَدَعْوَةِ الْمَظْلُومِ وَسُوءِ الْمَنْظَرِ فِي الْأَهْلِ وَالْمَالِ   یا اللہ! میں سفر کی تھکاوٹ، واپس آنے پر مایوسی، چستی کے بعد سستی ، مظلوم کی بد دعا، اور اہل و مال میں برے حالات سے پناہ مانگتا ہوں۔)

سنن نسائی : (5498) وغیرہ میں   وَالْحَوْرِ بَعْدَ الْكَوْرِ  کے الفاظ ہیں۔

اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ایسے شخص کا تذکرہ کیا ہے جو اچھائی سے برائی کی طرف چلا گیا، اس نے اپنی ساری محنت پر پانی پھیر دیا، اور راہ ہدایت کے درمیان سے ہی واپس مڑ گیا، اس کی ایسی مثال بیان کی ہے جس سے اس کے غلط فیصلے اور اپنے لیے غیر مناسب انتخاب کی وجہ سے نقصان ہوا، اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو ایسا احمقوں والا کام کرنے سے منع فرمایا اور کہا:
 وَأَوْفُوا بِعَهْدِ اللَّهِ إِذَا عَاهَدْتُمْ وَلا تَنْقُضُوا الأيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلا إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ * وَلا تَكُونُوا كَالَّتِي نَقَضَتْ غَزْلَهَا مِنْ بَعْدِ قُوَّةٍ أَنْكَاثًا تَتَّخِذُونَ أَيْمَانَكُمْ دَخَلا بَيْنَكُمْ أَنْ تَكُونَ أُمَّةٌ هِيَ أَرْبَى مِنْ أُمَّةٍ إِنَّمَا يَبْلُوكُمُ اللَّهُ بِهِ وَلَيُبَيِّنَنَّ لَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَا كُنْتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ 
ترجمہ: اور اگر تم نے اللہ سے کوئی عہد کیا ہو تو اسے پورا کرو۔ اور اپنی قسموں کو پکا کرنے کے بعد مت توڑو۔ جبکہ تم اپنے (قول و قرار) پر اللہ کو ضامن بنا چکے ہو جو تم کرتے ہو، اللہ اسے خوب جانتا ہے۔ [91] اور اس عورت کی طرح نہ ہونا جس نے بڑی محنت سے سوت کاتا پھر خود ہی اسے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔ تم اپنی قسموں کو باہمی معاملات میں مکر و فریب کا ذریعہ بناتے ہو کہ ایک جماعت دوسری سے ناجائز فائدہ حاصل کرے۔ اللہ تو ان (قسموں اور معاہدوں) کے ذریعہ تمہاری آزمائش کرتا ہے۔ اور قیامت کے دن تم پر یقیناً اس بات کی وضاحت کر دے گا جس سے تم اختلاف کیا کرتے تھے [النحل: 91-92]

شیخ سعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس معاہدے میں بندے کے اللہ تعالی سے کیے ہوئے تمام معاہدے ہیں چاہے ان کا تعلق عبادات سے ہو یا نذر سے یا اس نے جو ایسی قسمیں اٹھائی ہیں جنہیں پورا کرنا نیکی ہے تو یہ سب ان میں شامل ہیں، اسی طرح اس میں دو فریقوں کے درمیان ہونے والے معاہدے بھی شامل ہیں۔
 وَلا تَكُونُوا  یعنی تم اپنے وعدے توڑتے ہوئے بد ، قبیح اور بے فائدہ نہ بنو کہ جیسے  كَالَّتِي  ایک عورت تھی جو بڑا مضبوط سوت کاتتی پھر جب یہ مضبوط سوت تیار ہو جاتا تو اس کے تار پور بکھیر کر  أَنْكَاثًا  یعنی دھاگا دھاگا کر دیتی تھی، یعنی پہلے تو سوت بنانے کی محنت پھر اسے دھاگا دھاگا بنانے میں محنت ضائع کرتی تھی، اس عورت کو وقت کا ضیاع، تھکاوٹ، بیوقوفانہ فیصلے اور غلط رائے کے علاوہ کچھ نہ ملا، تو بالکل اسی طرح جو شخص اپنا وعدہ توڑ رہا ہے وہ ظالم، جاہل، بیوقوف، کمزور دین اور ناقص مروت کا مالک ہے۔" ختم شد
تفسیر سعدی: صفحہ: 447

اس لیے آپ اپنی موجودہ حالت سے نکلنے کے لیے جلد از جلد توبہ کریں؛ کیونکہ نماز چھوڑنا بہت بڑا گناہ ہے، نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز چھوڑنے کو کفر قرار دیا ہے، آپ کا فرمان ہے: (ہمارے اور اُن [کفار] کے درمیان نماز کا عہد ہے، جس نے نماز چھوڑی اس نے کفر کیا۔) اس حدیث کو ترمذی: (2545) اور امام احمد وغیرہ نے روایت کیا ہے، اور البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔

یہاں تعجب کی بات تو یہ ہے کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ: میں کوشش کرتا ہوں کہ گناہوں میں ملوث نہ ہوں! پھر آپ خود ہی بتلا رہے ہیں کہ آپ نے بہت سی نمازیں ضائع کی ہیں، تو آپ کے نزدیک گناہ کسے کہتے ہیں؟!!

کیونکہ نماز چھوڑنا بذات خود ایک بہت بڑا اور خطرناک گناہ ہے، آپ نے شرک کے علاوہ ہر گناہ سے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کی ہے۔

اس لیے آپ فوری طور پر توبہ کریں، اور چوک جانے والی نیکیوں پر نادم ہوں قبل ازیں کہ آپ پر ایسا وقت آئے کہ اس کے بعد ندامت کسی فائدے کی نہ ہو۔

آپ نے سوال میں لکھا ہے کہ: " مجھے لگتا ہے کہ نمازوں کے حوالے سے مجھ میں کوئی مسئلہ ہے اور وہ مسئلہ ناقابل حل ہے۔" تو یہ شیطان کی طرف سے وسوسہ اور آپ کو روکنے کا ہتھکنڈا ہے، اور آپ خود ہی اپنے دشمن شیطان کے اپنے ہی خلاف معاون بنے ہوئے ہیں، آپ نے ہی اس شیطان کو موقع دیا کہ آپ کے دل میں یہ خیال پختہ کر دے، اور خیر کی جانب بڑھنے کی بجائے آپ کی ہمت ختم کر دے، آپ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے فوری اقدامات کریں اور ہمیشہ وضو میں رہیں اور اول وقت میں ہی نماز ادا کرنے کی پوری کوشش کریں۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جب تم میں سے کوئی سویا ہوا ہو تو شیطان اس کے سر کی گدی پر تین گرہیں لگاتا ہے، اور ہر گرہ لگاتے ہوئے کہتا ہے: ابھی سویا رہ ، ابھی رات بہت لمبی ہے۔ چنانچہ اگر وہ بیدار ہو کر اللہ کا نام لے، تو ایک گرہ کھل جاتی ہے اور اگر وضو کر لے تو دوسری گرہ بھی کھل جاتی ہے، اور اگر نماز بھی پڑھ لے تو تیسری گرہ بھی کھل جاتی ہے، اور انسان چست ، خوش دل ہو جاتا ہے، وگرنہ سست اور بد دل ہو جاتا ہے۔) اس حدیث کو امام بخاری: (3269) اور مسلم : (776)نے روایت کیا ہے۔

ابن عبد البر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس حدیث میں ہے کہ شیطان اللہ کے مخلص بندوں کے علاوہ لوگوں کو سلاتا ہے اور اس میں سستی اور کاہلی کا اضافہ کرتا ہے، اس کام کے لیے شیطان وسوسہ، گمراہ، سرکشی ، اور باطل کو خوبصورت بنانے کی صلاحیت اپناتا ہے ، اور باطل پر اعانت استعمال کرتا ہے۔

نیز اس حدیث میں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ اللہ کا ذکر شیطان کو پچھاڑ دیتا ہے، اسی طرح وضو اور نماز بھی شیطان کو بھگا دیتے ہیں۔" ختم شد
التهميد (19/45)

علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"بذات خود نماز جسمانی صحت کی حفاظت ، جسم کے فاضل مادوں اور اخلاط کو باہر نکالنے کا ذریعہ بنتی ہے، یہ فوائد ایمانی صحت، دنیا و آخرت کی سعادت سے الگ ہیں۔ اسی طرح قیام اللیل بھی حفظان صحت کے لیے بہت مفید ہے، بہت سے دائمی امراض سے بچنے کا کامیاب نسخہ ہے، بلکہ بدن، روح اور قلب کو بیدار کرنے کا بہترین ذریعہ ہے، جیسے کہ صحیح بخاری و مسلم کی روایت میں ہے ۔۔۔ " اس کے بعد انہوں نے سابقہ حدیث ذکر کی۔
زاد المعاد (4/225)

اس لیے اللہ کے بندے اپنے دشمن کے سامنے کمزور مت بنیں، نہ ہی اسے اپنے آپ پر تسلط جمانے کا موقع دیں، اللہ تعالی سے مدد مانگیں اور کمزوری مت دکھائیں، جیسے کہ آپ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے آپ کو حکم دیا ہے۔ اور یہ بھی ذہن نشین کر لیں کہ:
 كَيْدَ الشَّيْطَانِ كَانَ ضَعِيفاً 
 ترجمہ: شیطان کی مکاری بہت ہی کمزور ہوتی ہے۔[النساء: 76]

یہ بھی واضح ہو جائے کہ فرض نمازیں تو تھوڑی سی ہیں ان کی ادائیگی کے لیے مسلمان کو بہت زیادہ مشقت نہیں اٹھانی پڑتی۔

آپ نے ہمت جواب دینے کا ذکر کیا، تو اس کا سبب آپ کے حلقہ احباب کے لوگ ہو سکتے ہیں کہ آپ کس قسم کے لوگوں کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں؟ اس لیے آپ اچھے لوگوں کی صحبت اختیار کریں، ذکر اور علم کی محفل میں شریک ہوں۔ کیونکہ انسان کے لیے عبادت کرنا اس وقت مزید آسان ہو جاتا ہے جب انسان کو نیکی کرنے کے لیے معاون ساتھی مل جائے ۔

انسان کی زندگی میں چستی اور سستی دونوں آتے جاتے رہتے ہیں، کبھی نیکی کرنے کے لیے اس کی چاہت بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے، اور بسا اوقات یہ چاہت کم بھی ہو جاتی ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ انسان فرائض کو ہی چھوڑنے لگ جائے، یا حرام کاموں کا ارتکاب کرنے لگے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (یقیناً ہر کام کی ایک چستی ہوتی ہے اور ہر چستی کے لیے سستی بھی ہے؛ چنانچہ جس کی چستی میری سنت کی جانب ہو تو وہ کامیاب ہو گیا، اور جس کی سستی غیر سنت کی جانب ہو تو وہ ہلاک ہو گیا۔) اس حدیث کو امام احمد: (6725) نے روایت کیا ہے، اور البانی ؒ نے اسے صحیح الجامع: (2151) میں صحیح قرار دیا ہے۔

اس لیے محترم سائل ہم آپ کو یہ نصیحت کرتے ہیں کہ آپ اپنا پورا پروگرام سیٹ کریں اور پھر اس میں کمی نہ آنے دیں، اس پروگرام میں فرائض، سنت مؤکدہ، اور نوافل بھی شامل ہوں، تاہم اس میں بسا اوقات اضافہ ہو جائے تو اچھی بات ہے لیکن اگر کمی آنے لگے تو فرائض میں کمی نہ آئے۔

ماضی میں آپ کی رہ جانے والی نمازوں کے بارے میں یہ ہے کہ جس قدر نمازیں نیند کی وجہ سے رہ گئیں ہیں تو آپ پر ان کی قضا واجب ہے، اور جو نمازیں بغیر عذر کے رہ گئیں ہیں کہ آپ نے سستی کا مظاہرہ کیا اور نماز کا وقت نکل گیا تو آپ توبہ کریں، تو یہاں قضا دینے کا فائدہ نہیں ہو گا۔ آپ لازمی طور پر کثرت سے نوافل ادا کریں اور استغفار کریں، امید ہے کہ اللہ تعالی آپ کی اس خطا سے در گزر فرمائے گا۔

پہلے ہم سوال نمبر: (7969 ) کے جواب میں اہل علم کی گفتگو ذکر کر آئے ہیں، اس لیے آپ اس کا مطالعہ کریں۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب