الحمد للہ.
اول:
آپ كے سوالات كا جواب دينے سے قبل آپ كو يہ ياد دلالنا ضرورى ہے كہ اگر تو آپ واقع كے بغير يہ كچھ كہہ رہے ہيں تو آپ گنہگار ہونگے اور اس طرح آپ اپنى بيوى پر بہتان لگانے كى صورت ميں آپ كو حد قذف ميں اسى كوڑے مارے جائيں گے.
ليكن اگر آپ اس دعوى ميں سچے ہيں تو بلاشك يہ بہت بڑى مصيبت اور عظيم آزمائش ہے، تو پھر آپ كى بيوى اور اس گنہگار اور مجرم شخص كے مابين صرف تعلقات ہونے كا يہ معنى نہيں كہ ان دونوں نے زنا بھى كيا ہو.
اس ليے آپ كو اس پر متنبہ رہنا چاہيے، اور آپ كو علم ہونا چاہيے كہ دنيا كا عذاب اور سزا ـ اسى كوڑے ـ يہ آخرت كے عذاب سے بہت ہى آسان و ہلكا ہے، جو شخص بھى اپنى بيوى پر بہتان لگاتا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اس كے ساتھ ايسا ہى كيا كرتے تھے.
ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:
ايك شخص نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم يہ بتائيں كہ اگر ہم ميں سے كوئى شخص اپنى بيوى كو زنا و فحاشى كرتے ہوئے پائے تو كيا كرے ؟
اگر وہ بات كرے تو ايك عظيم چيز كى بات كر رہا ہے، اور اگر اس پر خاموشى اختيار كر لے تو بھى ايك بہت بڑے معاملہ پر خاموش رہا ہے.
راوى بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم خاموش رہے اور اسے كوئى جواب نہ ديا، اس كے بعد وہ شخص پھر آيا اور كہنے لگا:
جس كے متعلق ميں نے آپ سے دريافت كيا تھا ميں اس ميں متبلا كر ديا گيا ہوں، چنانچہ اللہ سبحانہ و تعالى نے سورۃ النور كى يہ آيات " والذين يرمون ازواجھم " نازل فرمائيں.
چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ آيات اس شخص كو پڑھ كر سنائيں، اور اسے وعظ و نصيحت كى، اور اسے بتايا كہ دنيا كى سزا آخرت كے عذاب كے مقابلہ ميں بہت كم ہے.
وہ شخص كہنے لگا: نہيں اللہ كى قسم جس نے آپ كوحق دے كے معبوث كيا ہے ميں نے اس پر كوئى بہتان نہيں لگايا، پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كى بيوى كو بھى بلايا اور اسے بھى وعظ و نصيحت فرمائى، اور اسے بتايا كہ دنيا كى سزا آخرت كے عذاب سے بہت آسان اور كم ہے تو وہ كہنے لگى:
نہيں اللہ كى قسم جس نے آپ كو حق دے كر مبعوث كيا ہے بلاشك يہ جھوٹا ہے، چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مرد سے شروع كيا تو اس نے چار بار اللہ كى گواہى دے كہا وہ سچا ہے اور پانچويں بار كہا: اگر وہ جھوٹا ہے تو اس پر اللہ كى لعنت ہو.
پھر آپ نے عورت سے كہا: تو اس نے چار بار اللہ كى قسم دے كر كہا كہ وہ جھوٹا ہے، اور پانچويں بار كہا: اگر وہ سچا ہے تو مجھ پر اللہ كى لعنت، پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان كے مابين عليحدگى كرا دى "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5005 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1493 ) يہ الفاظ مسلم كے ہيں.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" جب كوئى شخص اپنى بيوى پر قذف و بہتان لگائے تو اس پر حد قذف واجب ہو جاتى ہے، اور اس كى گواہى قبول نہيں كى جائيگى اور اسے فاسق كا حكم ديا جائيگا، ليكن اگر وہ اس كى كوئى گواہى لائے يا پھر لعان كرے تو پھر ٹھيك ہے.
ليكن اگر وہ چار گواہ پيش نہيں كرتا اور نہ ہى لعان كرتا ہے تو اس پر يہ سب كچھ لازم ہو گا، امام مالك اور امام شافعى رحمہم اللہ كا قول يہى ہے...
اور ہمارى دليل درج ذيل فرمان بارى تعالى ہے:
اور وہ لوگ جو پاكدامن عورتوں پر بہتان لگاتے ہيں اور پھر چار گواہ پيش نہيں كرتے انہيں اسى كوڑے مارو، اور كبھى ان كى گواہى قبول نہ كرو، اور يہى لوگ فاسق ہيں .
يہ خاوند وغيرہ كے بارہ ميں عام ہے، اور خاوند كو لعان كے ليے خاص اس ليے كيا گيا ہے كہ وہ اپنے آپ سے حد اور فسق كى نفى اور گواہى كى عدم قبوليت ختم كرنے كے ليے گواہى كى جگہ لعان كرے.
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ فرمان بھى دليل ہے:
" گواہى پيش كرو، وگرنہ آپ كو حد لگے گى "
اور جب اس نے لعان كيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" دنيا كى سزا آخرت كے عذاب كے مقابلہ ميں بہت آسان و كم ہے "
اور اس ليے بھى كہ اگر اس نے جھوٹ بولا تو اس پر حد لگے گى، اس ليے اگر وہ مشروع كردہ گواہ پيش نہيں كرتا تو پھر وہ بھى اجنبى كى طرح ہى ہوا.
ديكھيں: المغنى ( 9 / 30 ).
اس ليے اگر يہ ثابت ہو جائے كہ بيوى نے كسى اجنبى شخص كے ساتھ حرام تعلقات قائم كر ركھے ہيں اور اس ميں شك كى مجال نہ ہو، يا پھر آپ كے ليے اس كا زنا ثابت ہو جائے، يا وہ آپ كے سامنے خود اعتراف كر لے تو آپ كے ليے اسے باقى مانندہ مہر سے دستبردار ہونے پر مجبور كرنا جائز ہے.
ليكن اگر اس كے حرام تعلقات نہ تھے، اور نہ ہى آپ كے ليے اس كا زنا ثابت ہوتا ہے تو پھر آپ كے ليے اسے تنگ كرنا جائز نہيں.
اس كے حرام تعلقات قائم كرنے پر خاموش نہيں رہنا چاہيے يا تو اسے وعظ و نصيحت كر كے اس سے توبہ كروائى جائے اور وہ آپ كے ساتھ رہے، يا پھر وہ آپ سے عليحدگى كو اختيار كر لے، اور اگر وہ آپ كے نكاح ميں رہنا پسند نہ كرے تو آپ اسے مہر ادا كر كے طلاق دے ديں.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اے ايمان ولو! تمہارے حلال نہيں كہ تم عورتوں كو جبرا اپنے ورثے ميں لے بيٹھو انہيں اس ليے رو ك ركھو كہ تم نے انہيں جو كچھ ديا ہے اس ميں سے كچھ واپس لے لو، ہاں يہ اور بات ہے كہ وہ واضح اور كھلى برائى و بےحيائى كريں، ان كے ساتھ اچھے طريقہ سے بود و باش اختيار كرو، گو تم انہيں ناپسند كرو ليكن بہت ممكن ہے كہ تم كسى چيز كو برا جانو اور اللہ تعالى اس ميں بہت ہى بھلائى پيدا كر دے النساء ( 19 ).
فحاشى صرف زنا ہى نہيں، بلكہ اس كے الفاظ ميں خاوند كى نافرمانى و معصيت، اور خاوند اور اس كے گھر والوں كو برا كہنا اور گاليا دينا بھى شامل ہے، كسى اجنبى مرد سے ناجائز تعلقات قائم كرنا تو بالاولى ان الفاظ اور اس كے حكم ميں شامل ہوتے ہيں.
ابن كثير رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" فرمان بارى تعالى:
الا يہ كہ وہ واضح اور كھلى بےحيائى كريں .
ابن مسعود، ابن عباس، سعيد بن مسيب، شعبى، حسن بصرى، محمد بن سيرين، سعيد بن جبير، مجاہد، عكرمہ، عطاء الخراسانى، ضحاك، ابو قلابہ، ابو صالح، سدى، زيد بن اسلم، سعيد بن ابى ھلال كہتے ہيں:
اس سے مراد زنا ہے، يعنى جب عورت زنا كرے تو آپ كو حق حاصل ہے كہ آپ اس سے مہر واپس لے ليں، اور اس پر تنگى كريں تا كہ وہ مہر چھوڑ كر خلع حاصل كرے.
جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے سورۃ البقرۃ ميں فرمايا ہے:
اور تمہارے ليے حلال نہيں كہ جو كچھ تم نے انہيں دے ركھا ہے ان سے واپس لو، ہاں اگر دونوں كو يہ خوف ہو كہ وہ اللہ كى حدود قائم نہيں كر سكيں گے، اگر تمہيں خدشہ ہو كہ وہ دونوں اللہ كى حدود كا خيال نہيں كرينگے تو عورت رہائى پانے كے ليے كچھ فديہ دے تو اس ميں دونوں پر كوئى گناہ نہيں البقرۃ ( 229 ).
ابن عباس، عكرمہ اور ضحاك كہتے ہيں: واضح بےحيائى سے مراد خاوند كى نافرمانى و معصيت ہے.
اور ابن جرير طبرى رحمہ اللہ نے اسے عام اختيار كيا ہے اور يہ زنا و نافرمانى و خاوند كى بےادبى، اور بدزبانى وغيرہ سب كو شامل ہوگا.
يعنى يہ سب كچھ خاوند كے ليے مباح كرتا ہے كہ وہ اس كى بنا پر بيوى كو ڈانٹ سكتا ہے اور اسے مجبور كر سكتا ہے حتى كہ وہ اس كا سارا حق يا كچھ حق ركھے، اور اسے عليحدہ كر دے يہ اچھا ہے " واللہ اعلم.
ديكھيں تفسير ابن كثير ( 2 / 241 ).
آپ كے ليے يہ جاننا ضرورى ہے كہ صرف زنا سے بيوى كا مہر ساقط نہيں ہو جاتا.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" صرف عورت كے زنا كرنے سے مہر ساقط نہيں ہوگا، جيسا كہ لعان كرنے والوں كے ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان دلالت كرتا ہے، جب اس شخص نے كہا ميرا مال ؟
" تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اس كے پاس تيرا كوئى مال نہيں؛ تم نے اس كے بارہ ميں جو كہا ہے اگر تم اس ميں سچے ہو تو يہ مال اس كے مقابلہ ميں ہے جو تم نے اس كى شرمگاہ حلال كى تھى، اور اگر تم جھوٹے ہو تو پھر يہ تو اور زيادہ بعيد ہے "
كيونكہ جب عورت زنا كر بيٹھے تو ہو سكتا ہے وہ توبہ كر لے، ليكن عورت كا زنا كرنا خاوند كے ليے اسے روك لينے اور مجبور كرنا مباح كر ديتا ہے كہ اگر خاوند عليحدگى چاہتى ہے تو وہ رہائى پانے كے ليے فديہ دے، يا پھر توبہ كر لے.
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 15 / 320 ).
دوم:
بيوى اگر اپنے خاوند كے علم كے بغير خاوند كا مال ليتى ہے تو اس كى دو حالتيں ہونگى:
پہلى حالت:
يا تو وہ مال اپنے اور بچوں اور گھريلو اخراجات كے ليے ہے اور ايسا كرنے كا سبب يہ ہو كہ خاوند بخيل ہے اور خرچ كرنے ميں بخل سے كام ليتا ہے.
دوسرى حالت:
يہ مال اشياء خريدنے يا پھر ميكے والوں كو دينے يا دوسرے خرچ كے حالت كے ليے ہو.
پہلى حالت ميں تو خاوند كے ليے اس مال كو لينے كا مطالبہ كرنا حلال نہيں؛ كيونكہ اس نے تو وہى كچھ ليا ہے جو اس كا حق تھا؛ كيونكہ بيوى اور بچوں كا خرچ گھر كے ذمہ دار پر واجب ہے اور جب وہ اس ميں كوتاہى اور كمى كرے يا روك دے تو پھر اس كے مال سے لينا جائز ہے، چاہے اس كى لاعلمى ميں ہى ليا جائے.
اس كى دليل درج ذيل حديث ہے:
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ ابو سفيان كى بيوى ھند نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئى اور عرض كرنے لگى:
ابو سفيان ايك بخيل شخص ہے، اور مجھے اتنا مال نہيں ديتا جو ميرے اور بچوں كے اخراجات كے ليے كافى ہو، الا يہ كہ ميں اس كى لاعلمى ميں كچھ مال لے لوں تو اخراجات پورے ہوتے ہيں.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اچھے طريقہ سے اتنا لے ليا كرو جتنا تمہيں اور تمہارى اولاد كو كافى ہو "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5049 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1714 ).
امام نووى رحمہ اللہ اس حديث كے فوائد بيان كرتے ہوئے كہتے ہيں:
" ان فوائد ميں يہ بھى شامل ہے كہ: اگر كسى كا كسى دوسرے پر حق ہو اور وہ اس حق كو پورا كرنے سے عاجز ہو، تو اس كے مال سے اپنے حق كے مطابق اس كى اجازت كے بغير مال لينا جائز ہے "
ديكھيں: شرح مسلم ( 4 / 373 ).
اور دوسرى حالت ميں بيوى كے ليے اوپر جو كچھ بيان ہوا ہے جو آپ كے ذمہ واجب ہوتا ہے كے علاوہ كچھ لينا حلال نہيں، اور اگر وہ ايسا كرتى ہے تو گنہگار ہوگى، اور آپ كو وہ مال طلب كرنے كا حق حاصل ہے، اور اگر وہ انكار كر دے تو آپ اس كے باقى مانندہ مہر سے اتنى رقم ركھ سكتے ہيں.
يا پھر جو آپ كے ذمہ اس كا مال ہے اس ميں سے لے سكتے ہيں، ليكن اگر وہ كسى محتاج پر صدقہ كرنے كے ليے مال ليتى ہے تو اس ميں تفصيل ہے، ليكن اس ميں آپ كو لينے كا مطالبہ كرنے كا حق حاصل نہيں ہے.
سوم:
اصل ميں سات برس كى عمر تك بچوں كى پرورش كا حق ماں كو حاصل ہے جب تك وہ كسى اور سے شادى نہيں كرتى، اور بچوں كى پرورش كا مطلب انہيں كھانا پلانا اور ان كى مادي ضروريات پورى كرنا نہيں.
بلكہ پرورش ميں ان كى تعليم و تربيت بھى شامل ہے بلكہ يہ اہم ترين اشياء ميں شامل ہوتى ہے، اور اسى طرح پرورش ميں ان كى نفسي اور اخلاقى ديكھ بھال كرنا بھى شامل ہوگى.
اس ليے اگر ماں كافرہ يا فاسقہ ہے تو بچوں كو اس كى تربيت ميں دينا جائز نہيں، پرورش كے ليے ماں يا باپ ہونا معتبر نہيں بلكہ معتبر تو يہ ہے كہ وہ بچوں كى پرورش كس طرح كرينگے آيا وہ اسلامى تربيت كرينگے يا كہ نہيں، اس بنا والدين ميں سے بچوں كى پرورش كا حقدار وہ ہوگا جو دينى طور پر بہتر اور اچھا ہو.
اس ليے اگر طلاق كے بعد ماں معصيت ميں ڈوبى ہوئى ہو تو بچوں كى اس كى پرورش ميں نہيں دينا چاہيے، اس صورت ميں پرورش كا حق والد كو حاصل ہوگا، اور اگر ماں توبہ كر كے رجوع كر لے تو پھر جب تك وہ شادى نہيں كرتى بچوں كى پرورش كى حقدار ہوگى.
كيونكہ توبہ كرنے والا تو بالكل اس طرح ہى ہے جس كے كوئى گناہ ہى نہ ہوں "
ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" ہمارے استاد ـ يعنى ابن تييميہ رحمہ اللہ ـ كا كہنا ہے: جب والدين ميں سے كوئى ايك بھى بچے كى تعليم اور وہ كام جو اللہ نے اس پر واجب كيا تھا ترك كر دے تو وہ گنہگار ہوگا، اس حالت ميں اسے اس بچے پر كوئى ولايت حاصل نہيں ہوگى.
بلكہ ہر وہ شخص جو اپنى ولايت ميں واجب كو پورا نہ كرے تو اسے اس بچے پر كوئى ولايت حاصل نہيں ہوگى، يا تو وہ ولايت سے ہاتھ اٹھا لے اور جو واجب كو پورا كرے گا اس كى ولايت ميں ديا جائے، يا پھر وہ اس كو ديا جائے جو واجب كو پورا كرے، يعنى مقصد يہ ہے كہ اللہ سبحانہ و تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى اطاعت ہونى چاہيے.
ہمارے استاد كہتے ہيں: يہ حق ميراث يعنى وراثت كى جنس ميں سے نہيں جس سے رشتہ دارى اور نكاح اور ولاء حاصل ہوتى ہے، چاہے وارث فاسق و فاجر ہو يا نيك و صالح، بلكہ يہ تو ولايت كى جنس سے ہے جس ميں حسب الامكان واجب پورا كرنے كى قدرت و علم ہونا ضرورى ہے.
ان كا كہنا ہے: اگر فرض كر ليا جائے كہ باپ نے كسى ايسى عورت سے شاى كر لى جو اس كى بيٹى كى مصلحت كا خيال نہيں كرتى، اور نہ ہى اس كى مصلح تكو پورا كرتى ہے، اور بچى كى ماں اس سوكن سے زيادہ بچى كى مصلحت كا خيال ركھتى ہے تو پھر يہاں بچى كى پرورش قطعى طور پر ماں كو حاصل ہوگى.
ان كا كہنا ہے كہ: يہ بھى معلوم ہونا چاہيے كہ والدين ميں سے كسى ايك كو پرورش ميں مقدم كرنے كے ليے شارع كى جانب سے كوئى نص نہيں ہے، اور نہ ہى والدين كے مابين بچے كو اپنانے كا اختيار ہے، علماء اس پر متفق ہيں كہ ان ميں سے كسى ايك كو بھى مطلقا متعين نہيں كيا جائيگا.
بلكہ دشمنى و عدوان اور كوتاہى كرنے والے كو نيكى عادل اور محسن شخص پر مقدم نہيں كيا جائيگا "
واللہ اعلم.
ديكھيں: زاد المعاد ( 5 / 475 - 476 ).
مزيد آپ سوال نمبر ( 20705 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
چہارم:
حاملہ عورت كو طلاق دينا شرعى طريقہ ہے، اور سنت كے موافق ہے، عام لوگوں كا خيال ہے كہ حاملہ عورت كو دى گئى طلاق واقع نہيں ہوتى، ليكن ان كے اس قول و خيال كى كوئى اصل و دليل نہيں ملتى اور يہ قول غير شرعى ہے، بلكہ يہ طلاق تو طلاق سنى كہلاتى ہے.
امام مسلم رحمہ اللہ نے ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہ كا اپنى بيوى كو طلاق دينے كا واقعہ بيان كيا ہے جس ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ فرمان ہے:
" اسے يہ حكم دو كہ وہ بيوى سے رجوع كر لے، اور پھر اسے طہر كى حالت ميں يا پھر حمل كى حالت ميں طلاق دے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1471 ).
ابن عبد البر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" رہى حاملہ عورت تو علماء كرام كے مابين اس ميں كوئى اختلاف نہيں پايا جاتا كہ حاملہ عورت كو دى گئى طلاق سنى كہلاتى ہے، چاہے وہ حمل كى ابتدا ميں ہو يا حمل كے آخر ميں؛ كيونكہ اس كى عدت وضع حمل ہے.
اور اسى طرح ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كى حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ آپ نے ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كى حكم ديا تھا كہ:
" وہ يا تو بيوى كو طہر كى حالت ميں طلاق ديں، يا پھر حمل كى حالت ميں "
ليكن اس ميں يہ تخصيص نہيں كى كہ حمل كى ابتدا ميں ہو يا حمل كے آخر ميں.
ديكھيں: التمھيد ( 15 / 80 ).
ہم نے حاملہ عورت كى طلاق كے بارہ ميں شيخ عبد العزيز ابن باز رحمہ اللہ كا فتوى سوال نمبر ( 12287 ) كے جواب ميں نقل كيا ہے، آپ اس كا مطالعہ ضرور كريں.
اس صورت ميں آپ اپنى بيوى كو ايك رجعى طلاق دے سكتے ہيں، اور اس كے بعد آپ كو اختيار ہے كہ اگر آپ ديكھيں كہ بيوى نے اپنى اصلاح اور توبہ كر لى ہے اور آپ اس كى توبہ سے مطئمن ہيں تو آپ عدت ـ يہاں اس كى عدت وضع حمل ہو گى ـ ميں اس سے رجوع كر ليں، يا پھر عدت ختم ہونے كا انتظار كريں تو عدت ختم ہونے كے بعد بيوى كو بينونت صغرى حاصل ہو جائيگى.
اس طرح وہ آپ سے آزاد ہو جائيگى، اور اگر آپ عدت ختم ہونے كے بعد اسے واپس لانا چاہيں تو پھر آپ بيوى كى رغبت اور اس كے ولى كى رضامندى سے نيا نكاح جس ميں مہر بھى نيا ہو اور گواہ بھى ہوں كر سكتے ہيں.
آپ نہ تو ايك ہى مجلس ميں تين طلاق دے سكتے ہيں اور نہ ہى ايك ہى الفاظ ميں تين طلاق دے سكتے ہيں؛ كيونكہ يہ سنت نبويہ كے مخالف ہے.
اس كى تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 36580 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
واللہ اعلم .