الحمد للہ.
اگر غسل کرنے والے شخص نے صرف کفایت کرنے والا غسل کیا جو کہ سوال نمبر: (10790) کے جواب میں بیان کیا گیا ہے، جس میں صرف بدن پر پانی بہایا جاتا ہے، غسل سے قبل وضو نہیں کیا جاتا، تو اسکے بارے میں کچھ تفصیل ہے:
اگر غسل جنابت، حیض، یا نفاس کی وجہ سے واجب تھا، اور ناپاکی [حدث اکبر]ختم کرنے کیلئے غسل کیا گیا تو اہل علم کے صحیح قول کے مطابق ایسا غسل وضو سے کفایت کرجائےگا، کیونکہ حدث اصغر [بے وضگی] حدث اکبر میں شامل ہوتی ہے، چنانچہ غسل کرنے سے جب حدثِ اکبر ختم ہوگیا تو اس سے یہ لازم آئے گا کہ حدث اصغر [بے وضگی] بھی ختم ہوجائے۔
اور اگر غسل جمعہ اور عیدین کا مسنون غسل تھا ، تو مرد ہو یاعورت کسی کی طرف سے بھی یہ غسل وضو سے کفایت نہیں کریگا۔
چنانچہ "شرح مختصر خليل" از : خرشی(1/175) میں ہے کہ:
"واجب غسل کی صورت میں اگر نہانے والا شخص صرف غسل پر ہی اکتفاء کرے تو وضو کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اور اگر واجب غسل نہ ہو مثلا: جمعہ اور عیدین وغیرہ کا غسل تو جب بھی نماز کا ارادہ ہوگا تو وضو کرنا پڑے گا"انتہی
اور "حاشية الصاوي على الشرح الصغير" (1/173-174) میں ہے کہ:
"غسل جنابت وضو سے کفایت کر جاتا ہے، اور اگر جمعہ یا عیدین کیلئے کیا جانے والا مستحب غسل ہو، وضو سے کفایت نہیں کریگا، اس لئے جب بھی نماز کا ارادہ ہوگا تو وضو لازمی کرنا پڑیگا"انتہی
شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ "مجموع فتاوى ابن باز" (10/173-174) میں کہتے ہیں :
"اگر غسلِ جنابت تھا ، اور غسل کرنے والے شخص نے حدث اصغر و اکبر دونوں کی نیت کی تو دونوں سے کفایت کر جائے گا، لیکن افضل یہ ہی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا کرتے ہوئے پہلے شرمگاہ دھوئے، اسکے بعد مکمل وضو کر کے پورا غسل کرے، یہی حکم حائضہ اور نفاس والی خاتون کا ہے۔
اور اگر غسل واجب نہیں تھا بلکہ جمعہ کا غسل یا روز مرہ صفائی ستھرائی اور گرمی سے بچنے کیلئے یا کسی اور مقصد کیلئے غسل کر رہا ہےتو وضو سے کفایت نہیں کریگا، چاہے وضو کی نیت ہی کیوں نہ کرلے؛ کیونکہ غسل کرتے وقت وضو والی ترتیب نہیں رہتی، حالانکہ ترتیب وضو میں فرض ہے، اور نہ ہی حدث اکبر [جنابت وغیرہ ]موجود ہے جسے ختم کرنے کی نیت میں حدث اصغر بھی اس میں شامل ہوسکے، جبکہ غسل جنابت میں ایسے ہوسکتا ہے[یعنی غسل جنابت کے بعد وضو کی ضرورت نہیں]"انتہی
اور اسی طرح " مجموع الفتاوى " (10/175-176) میں ہے کہ:
جنبی کیلئے سنت یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا کرتے ہوئے پہلے وضو کرے، پھر غسل، اور اگر غسل جنابت کرتے ہوئے حدث اکبر و اصغر دونوں کی نیت کی تو یہ غسل دونوں سے کفایت کر جائے گا، لیکن یہ کام افضل نہیں ہے، اور اگر یہ غسل مستحب غسل تھا یعنی جمعہ کے دن کا غسل یا گرمی سے بچنے کیلئے غسل کیا جا رہا تھا تو پھر اکیلا غسل وضو سے کفایت نہیں کریگا، بلکہ غسل سے پہلے یا بعد میں وضو لازمی کرنا ہوگا؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اللہ تعالی تم میں سے کسی کی نماز بے وضو ہونے پر قبول نہیں کرتا جب تک وہ وضو نہ کرلے)اس حدیث کے صحیح ہونے پر سب کا اتفاق ہے۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی فرمان ہے کہ: (نماز بغیر وضو کے قبول ہی نہیں ہوتی)مسلم
اور غسلِ مستحب یا غسلِ مباح حدث اصغر [بے وضگی]سے کفایت نہیں کرتا، الّا کہ انسان اسی طرح [وضو ]کرے جیسے اللہ تعالی نے کرنے کا حکم قرآن میں دیا ہے:
( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ )
ترجمہ: ایمان والو! جب تم نماز پڑھنے کا ارادہ کرو تو اپنے چہرے، کہنیوں تک ہاتھ دھو لو، سر کا مسح کرو، اور ٹخنوں تک پاؤں دھو لو۔ المائدة/6
اور اگر غسل جنابت، حیض یا پھر نفاس کی وجہ سے تھا ، اور غسل کرنے والے نے دونوں حدث اکبر[جنابت وغیرہ]اور حدث اصغر [بے وضگی] رفع کرنے کی نیت کی تو دونوں سے کفایت کر جائے گا؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے: (بیشک اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے، اور ہر شخص کو اسکی نیت کے مطابق ملے گا)اس حدیث کے صحیح ہونے پر سب کا اتفاق ہے"انتہی
اور شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ "لقاء الباب المفتوح" (لقاء نمبر: 109/سوال نمبر: 14) میں کہتے ہیں:
"اگر وضو کی نیت سے نہا لے، اور وضو نہ کرے تو اسکا یہ غسل وضو سے کفایت نہیں کریگا، الّا کہ غسلِ جنابت ہوتو وضو کرنے کی ضرورت نہیں رہتی ؛ کیونکہ اللہ تعالی نے فرمایا: ( وَإِنْ كُنْتُمْ جُنُباً فَاطَّهَّرُوا )اور اگر تم جنبی ہو تو غسل کر لو۔ المائدة/6 ، یہاں پر اللہ تعالی نے وضو کرنے کا حکم نہیں دیا۔[صرف غسل کا ذکر کیا ہے]
اور اگر گرمی سے بچنے کیلئے یا جمعہ کے دن کا مستحب غسل تھا تو الگ سے وضو کرنا پڑے گا، کیونکہ یہ غسل کسی ناپاکی کو دور کرنے کیلئے نہیں ہے۔
اور قاعدہ یہ ہے کہ :اگر غسل جنابت، حیض، وغیرہ کی وجہ سے ہو تو یہ غسل وضو سے کفایت کر جائے گا، اور وضو کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی، اور اگر غسل واجب نہیں ہے تو پھر وضو کرنا پڑے گا"تھوڑی سی تبدیلی کیساتھ اقتباس مکمل ہوا
واللہ اعلم .