الحمد للہ.
اول:
اگر خاوند اپنى بيوى كو " تجھے دو طلاقيں يا دو بار طلاق " كے الفاظ بولے تو يہ ايك طلاق واقع ہوگى.
دوم:
اگر تو يہ پہلى طلاق تھى اور اس كو صرف دو ماہ ہى گزرے ہيں اور آپ كى عدت نہيں گزرى تو آپ ابھى بيوى كے حكم ميں ہيں، اور خاوند كو حق حاصل ہے كہ وہ آپ سے رجوع كر لے، اور آپ كو اس رجوع سے انكار كا حق حاصل نہيں، بلكہ آپ كو يہ رجوع قبول كرنے كى ضرورت ہے.
ليكن اگر آپ كى عدت گزر چكى ہے تو وہ آپ سے رجوع نہيں كر سكتا، الا يہ كہ آپ كى موافقت سے نئے مہر كے ساتھ نيا نكاح كرے، جس ميں ولى اور گواہ بھى ہوں يعنى نكاح كى سب شروط پائى جائيں.
جس عورت كو حيض آتا ہو اس كى عدت تين حيض ہيں جب وہ تيسرے حيض سے پاك ہو جائے اور غسل كر لے تو اس كى عدت ختم ہو جائيگى.
اور جس عورت كو عمر چھوٹى ہونے كى بنا پر حيض نہ آتا ہو يا پھر حيض سے نا اميد ہو چكى ہو تو اس كى عدت تين ماہ ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
طلاق والى عورتيں اپنے آپ كو تين حيض تك روكے ركھيں انہيں حلال نہيں كہ اللہ نے جو ان كے رحم ميں بچہ پيدا كيا ہے وہ اسے چھپائيں، اگر انہيں اللہ تعالى پر اور قيامت كے دن پر ايمان ہو، ان كے خاوند اس مدت ميں انہيں لوٹانے كا پورا حق ركھتے ہيں، اگر ان كا ارادہ اصلاح كا ہو اور عورتوں كے بھى ويسے ہى حقوق ہيں جيسے ان پر مردوں كے ہيں اچھائى كے ساتھ البقرۃ ( 228 ).
اور اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور جو تمہارى عورتيں حيض سے نااميد ہوچكى ہيں اگر تمہيں شبہ ہو تو ان كى عدت تين ماہ ہے، اور جنہيں حيض آيا ہى نہيں ان كى بھى، اور حمل واليوں كى عدت وضع حمل ہے الطلاق ( 4 ).
سوم:
طلاق رجعى عورت كے ليے عدت كے دوران جائز نہيں كہ كوئى شخص بھى دوران عدت اس سے شادى كے بارہ ميں بات كرے اور اپنے آپ كو اس كے سامنے شادى كے ليے پيش كرے، يا بطور كنايہ شادى كے ليے پيش كرے، كيونكہ وہ ابھى تك بيوى كے حكم ميں ہے، چنانچہ جب اس كى عدت گزر جائے تو اس سے منگنى كرنا اور رشتہ كرنا اور اس سے شادى كى بات كرنا جائز ہو گا.
اس بنا پر اگر آپ كى عدت ختم نہيں ہوئى ت وانٹرنيٹ كے ذريعہ تعارف ہونے والے نوجوا نكى جانب سے شادى كى يہ پيشكش حرام ہے.
چہارم:
انٹرنيٹ كے ذريعہ خاص پروگرام ميں يا پرائيويٹ چيٹ ميں مردوں كے ساتھ بات چيت كرنے كے بہت سارے غلط اثرات اور غلط نتائج اور برا انجام ہوتا ہے، اور غالبا يہ كئى قسم حرام اشياء پر مشتمل ہے، اور پھر جب يہ معاملہ شادى كے بارہ ميں بات چيت ہو اور جس كے ذريعہ اس تك پہنچا جائے يہ تو اور بھى برا فعل ہے، اس كے نتيجہ ميں بہت ہى كم صحيح شادى ہوتى ہے.
اس ليے ہم آپ كو يہى نصيحت كرتے ہيں كہ آپ اس نوجوان كے ساتھ تعلقات ختم كر ديں، اور اگر ابھى آپ عدت ميں ہيں تو شادى كے معاملہ ميں بات چيت كرنے سے توبہ كريں.
آپ پر لازم ہے كہ آپ اپنے خاوند كے پاس جائيں، اگر اس نے دوران عدت آپ كو طلب كيا اور رجوع كيا ہے تو آپ اس كے پاس جائيں، اور اگر اس كے بعد پھر آپ اس كے ساتھ رہنے ميں تنگى محسوس كريں تو يہ ضرر ختم كرنے كے ليے آپ كو طلاق طلب كرنے كا حق حاصل ہوگا.
آپ اللہ كا تقوى اور ڈر اختيار كريں، اور يہ علم ميں ركھيں كہ اللہ پر كوئى بھى چيز پوشيدہ نہيں، اور آپ اپنے ساتھ برائى مت كريں، اور نہ ہى اپنے خاوند كى شہرت خراب مت كريں يا پھر غير محرم مردوں كے ساتھ تعلقات بنا كر اس كى عزت كو داغدار نہ كريں.
كيونكہ اس كے نتيجہ ميں آپ كو مزيد غم اور پريشانى اور تنگى ہى حاصل ہو گى، آپ كا خاوند مزيد نفرت كرنے لگے گا اور آپ كو كسى دوسرے سے تعلق بنانے پر سعادت و امن اور راحت سے محروم كرديگا، كيونكہ اللہ كى اطاعت و فرمانبردارى كے علاوہ كسى اور چيز ميں راحت و آرام اور امن و سعادت نہيں ہے.
آپ كا ہميں سوال كرنا اس بات كى دليل ہے كہ آپ ميں خير و بھلائى پائى جاتى ہے، اور اللہ كى اطاعت و فرمانبردارى كى حرص اور نافرمانى كا خوف پايا جاتا ہے، اس ليے ہم آپ كو پھر نصيحت كرتے ہوئے ہم آپ كو خاوند كے حقوق كى ياد دہانى كراتے ہيں.
اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كے حالات كى اصلاح فرمائے، اور آپ كى پريشانى و غم كو دور كرے، اور جہاں كہيں بھى خير و بھلائى ہو اس ميں آپ كے ليے آسانى پيدا فرمائے.
واللہ اعلم .