جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

بيٹى كرنے سے انكار كرتى اور اپنے آپ كو اذيت كى دھمكى ديتى ہے

99965

تاریخ اشاعت : 26-01-2008

مشاہدات : 8696

سوال

ميرى بيٹى كى عمر چودہ برس ہے، اس نے دو برس قبل پردہ كرنا شروع كيا تھا ليكن اب پردہ اتار ديا ہے، اور دھمكى ديتى ہے كہ اگر ہم نے اسے پردہ كرنے پر مجبور كيا تو وہ كچھ كر بيٹھےگى اور اپنى جان كو اذيت دےگى، يہ علم ميں رہے كہ ميں اور اس والد دونوں ہى دينى امور كا التزام كرتے ہيں ميں نے اسے بات چيت كے اسلوب سے پردہ كرنے پر راضى كرنے كى كوشش كى ليكن اس كا كوئى فائدہ نہيں ہوا، اب ہميں كيا كرنا چاہيے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ آپ كى بيٹى كو راہ راست پر لائے اور ہدايت نصيب فرمائے، اور اس كى اصلاح فرمائے، اور اسے اس كے نفس اور شيطان كے شر سے محفوظ ركھے.

بلا شك آپ كے بيان كے مطابق بچى كا پردہ اتار دينا، اور پردہ كرنے سے انكار كرنا مومن كى بہت بڑى آزمائش ہے، اور پھر يہ آزمائش بھى اولاد جو كہ اسے سب سے زيادہ محبوب ہے كے متعلق ہے، يہ آزمائش صبر و تحمل، اور بہتر طريقہ سے حل كرنے كى محتاج ہے، اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ اس سلسلہ ميں آپ دونوں كى مدد فرمائے.

دوم:

والد پر واجب ہے كہ وہ بيٹى كو پردہ كرنے كا حكم دے، اور بلوغت كى حالت ميں بچى كے ليے پردہ لازم كرے، اور پردہ كيے بغير گھر سے مت نكلنے دے؛ كيونكہ وہ اپنى رعايا كا ذمہ دار ہے.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اے ايمان والو اپنے آپ اور اپنے گھر والوں كو جہنم كى آگ سے بچاؤ، جس كا ايندھن لوگ اور پتھر ہيں التحريم ( 6 ).

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" تم سب ذمہ دار ہو، اور اپنى رعايا كے متعلق جوبدہ ہو، اور مرد اپنے گھر والوں كا ذمہ دار ہے، اور اس سے اس كى رعايا كے متعلق باز پرس ہو گى، اور عورت اپنے خاوند كے گھر كى ذمہ دار ہے، اور اس سے اس كى رعايا كے متعلق باز پرس كى جائيگى "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 893 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1829 ).

اور والد اس سلسلہ ميں اولاد پر سختى كر سكتا ہے، اسے اس مسئلہ ميں سستى و كوتاہى سے كام نہيں لينا چاہيے، كيونكہ يہ ايك فرض اور واجب كا معاملہ ہے، اور ايسى معصيت و نافرمانى سے روكنا ہے جو گھر سے بار بار نكلنے كى بنا پر كئى بار ہوگى.

اصل يہى ہے جس پر عمل كرنا واجب ہے، ليكن اگر بيٹى كو پردہ پر مجبور كيا جائے تو وہ اپنے آپ كو نقصان پہنچانے كى دھمكى دے يا اسے پردہ كے بغير گھر سے نكلنے نہ ديا جائے اور وہ دھمكى دے، اور اس كى يہ دھمكى حقيقت پر مبنى ہو يعنى انسان كا غالب گمان ہو كہ وہ كچھ كر بيٹھےگى، يا پھر خاندان كو چھوڑ كر گھر سے بھاگ جانے كا سوچنے لگے گى، تو اس حالت ميں والدين كے ليے صرف اس كى راہنمائى كرنا اور اسے نصيحت كرنا ہى كافى ہوگا، اور اس كے ساتھ ساتھ وہ بيٹى كے ساتھ بہتر سے بہتر معاملہ كريں، اور اسے نيك و صالح قسم كے اعمال كرنے، اور ايمان قوى كرنے والے اعمال كى ترغيب دلائيں.

اور اس كے دل ميں اللہ سبحانہ و تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ محبت پيدا كرنے كى كوشش كريں، اميد ہے كہ يہ ہى اس كے ليے پردہ كرنے كا باعث بن جائے.

اور بچى كو نيك و صالح سہيلياں مہيا كرنا ضرورى ہے، كيونكہ بعض اوقات دوستى كا اثر والدين سے بھى زيادہ ہوتا ہے، اسى طرح يہ بھى ضرورى ہے كہ كسى ايسے شخص يعنى اس كے قريبى رشتہ دار يا عالم دين يا دعوت دين كا كام كرنے والے مبلغ سے معاونت لى جائے جو اسے نصيحت كرے، ہو سكتا ہے اسے اس مسئلہ ميں كوئى شبہ ہو، يا پھر بےپردگى كے گناہ اور اس كے خطرناك انجام سے غافل ہو، اور حالت يہ ہو كہ وہ دو گناہ يعنى والدين كى نافرمانى اور پردہ نہ كرنا اكٹھے كر رہى ہے.

پھر ہم آپ يہ نصيحت كرتے ہيں كہ آپ اپنى بيٹى كے ليے دعا ضرور كريں، اور خاص كر قبوليت كے اوقات ميں دعا كريں، كيونكہ بندوں كے دل اللہ و رحمن كى انگليوں كے مابين ہے، وہ جس طرح چاہے دل كو گھما ديتا ہے.

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كو توفيق سے نوازے اور آپ كى صيحح راہنمائى فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب