الحمد للہ.
اول:
لكھنے سے طلاق واقع نہيں ہو جاتى بلكہ جب خاوند اس كى نيت كرے اور لكھے تو طلاق واقع ہوگى، اس ليے جب اس نے بيوى كى طلاق لكھى ليكن طلاق دينے كى نيت نہ كى ہو تو جمہور علما كرے ہاں يہ طلاق واقع نہيں ہوگى.
شيخ محمد بن ابراہيم اور شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ نے بھى يہى قول اختيار كيا ہے.
اس كى تفصيل سوال نمبر ( 72291 ) كے جواب ميں بيان ہو چكى ہے، اس ليے آپ نے جو ميسج بھيجا تھا اس سے طلاق نہيں ہوئى؛ كيونكہ آپ نے طلاق كى نيت نہيں كى تھى.
دوم:
خاوند كا اپنى بيوى كو كہنا: تجھے طلاق تجھے طلاق تجھے طلاق اور اس ميں طلاق كى نيت بھى ہو تو يہ ايك طلاق شمار ہوتى ہے، بلكہ اس نے يہ الفاظ تاكيد كے ليے بولے ہيں، يا پھر بيوى كو كلام سمجھانے كے ليے، آئمہ اربعہ كے ہاں اس سے صرف ايك ہى طلاق واقع ہوگى.
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 1 / 221 ).
اس بنا پر آپ كا اپنى بيوى كو تجھے طلاق تجھے طلاق تجھے طلاق كہنا جبكہ آپ كى نيت ايك ہى طلاق ہو تو اس سے ايك طلاق واقع ہو گى، تو اس طرح يہ دوسرى طلاق ہوئى.
اس ليے كہ اس كى عدت ختم ہو چكى ہے لہذا آپ كے ليے رجوع كرنا ممكن نہيں، ليكن آپ كے ليے نئے مہر كے ساتھ نيا نكاح كرنے ميں كوئى حرج نہيں، اس ميں وہى شروط ہيں جو نكاح ميں ہوتى ہيں يعنى عورت كى رضامندى اور گواہوں اور ولى كى موجودگى .... الخ
اس عقد نكاح كے ساتھ وہ آپ كى بيوى بن جائيگى ليكن آپ كے پاس صرف ايك ہى طلاق كا حق باقى رہےگا.
آپ كو چاہيے كہ آپ اپنے گھر والوں اور بيوى كى پريشانى ختم كرنے ميں اس كى مدد كريں اور اس كے اسباب تلاش كر كے اس كا علاج كرائيں، اور ايسے اسباب تلاش كريں جو اس ميں ممد و معاون ہوں، يعنى شرح صدر اور راحت نفس وغيرہ.
واللہ اعلم .