جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

دوسرى طلاق دى اور عدت گزر گئى

99970

تاریخ اشاعت : 30-01-2013

مشاہدات : 4240

سوال

ميرى شادى كو سترہ برس ہو چكے ہيں ميرى بيوى كى نفسياتى حالت خراب تھى اور وہ بہت پريشان تھى اسى حالت ميں اس نے كئى بار طلاق كا مطالبہ كيا، چنانچہ ميں نے بہت دفعہ اس كا علاج كرنے كى كوشش كى، بلكہ ايك بار تو بيوى نے بہت زيادہ گولياں كھا كر خودكشى كرنے كى بھى كوشش كى.
چنانچہ ميں نے اسے طلاق دے دى اور جب اس كى حالت بہتر ہوئى تو ميں نے سترہ دن كے رجوع كر ليا، ليكن پھر دوسرے دن ہى اس نے طلاق كا مطالبہ كر ديا ليكن ميں نے طلاق نہ دى اور پھر مصر چلا گيا تا كہ پى ايچ ڈى كا امتحان دے سكوں اس نے ميرے گھر والوں سے ميرا ٹيلى فون نمبر حاصل كرنے كى كوشش كى اور نمبر حاصل كر كے مجھے ميسج كيا كہ اگر تم نے طلاق كا اسٹام نہ بھيجا تو ميں خود كشى كر لوں گى چنانچہ ميں نے ايك جھوٹا ميسج بھيجا اور اسے طلاق نہ دى.
مجھے خدشہ تھا كہ كہيں وہ موت كو گلے نہ لگا لے ليكن ميں نے طلاق كى نيت نہ كى تھى، اور جب سعوديہ واپس آيا تو ميں نے اس كے طلاق كے مطالبہ كى سنگينى كو محسوس كيا تو ميں نے پورا ادراك كرتے ہوئے اسے كہا يہ دوسرى بار ہے اور مجھے يہ بھى يقينى علم تھا كہ تجھے طلاق تجھے طلاق تجھے طلاق ايك ہى طلاق شمار ہوتى ہے جيسا كہ ميرے اور عام لوگوں كے ذہن ميں ہے. اس واقعہ كو پچاسى يوم ( 85 ) گزر چكے ہيں، اللہ كى توفيق اور دوستوں كى كوششوں سے ميں اس سے رجوع كرنا چاہتا ہوں، يہ علم ميں رہے كہ اس نے مجھے بتايا ہے كہ تين حيض گزر چكے ہيں، يہ علم ميں رہے كہ ہم ايك ہى جگہ ملازمت كرتے ہيں اور وہ ملازمت ميں ميرے ساتھ ہے، ميں اس گھر كى حفاظت چاہتا ہوں اور خاص كر جب كہ اولاد جوان ہونے كے قريب ہے.

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

لكھنے سے طلاق واقع نہيں ہو جاتى بلكہ جب خاوند اس كى نيت كرے اور لكھے تو طلاق واقع ہوگى، اس ليے جب اس نے بيوى كى طلاق لكھى ليكن طلاق دينے كى نيت نہ كى ہو تو جمہور علما كرے ہاں يہ طلاق واقع نہيں ہوگى.

شيخ محمد بن ابراہيم اور شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ نے بھى يہى قول اختيار كيا ہے.

اس كى تفصيل سوال نمبر ( 72291 ) كے جواب ميں بيان ہو چكى ہے، اس ليے آپ نے جو ميسج بھيجا تھا اس سے طلاق نہيں ہوئى؛ كيونكہ آپ نے طلاق كى نيت نہيں كى تھى.

دوم:

خاوند كا اپنى بيوى كو كہنا: تجھے طلاق تجھے طلاق تجھے طلاق اور اس ميں طلاق كى نيت بھى ہو تو يہ ايك طلاق شمار ہوتى ہے، بلكہ اس نے يہ الفاظ تاكيد كے ليے بولے ہيں، يا پھر بيوى كو كلام سمجھانے كے ليے، آئمہ اربعہ كے ہاں اس سے صرف ايك ہى طلاق واقع ہوگى.

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 1 / 221 ).

اس بنا پر آپ كا اپنى بيوى كو تجھے طلاق تجھے طلاق تجھے طلاق كہنا جبكہ آپ كى نيت ايك ہى طلاق ہو تو اس سے ايك طلاق واقع ہو گى، تو اس طرح يہ دوسرى طلاق ہوئى.

اس ليے كہ اس كى عدت ختم ہو چكى ہے لہذا آپ كے ليے رجوع كرنا ممكن نہيں، ليكن آپ كے ليے نئے مہر كے ساتھ نيا نكاح كرنے ميں كوئى حرج نہيں، اس ميں وہى شروط ہيں جو نكاح ميں ہوتى ہيں يعنى عورت كى رضامندى اور گواہوں اور ولى كى موجودگى .... الخ

اس عقد نكاح كے ساتھ وہ آپ كى بيوى بن جائيگى ليكن آپ كے پاس صرف ايك ہى طلاق كا حق باقى رہےگا.

آپ كو چاہيے كہ آپ اپنے گھر والوں اور بيوى كى پريشانى ختم كرنے ميں اس كى مدد كريں اور اس كے اسباب تلاش كر كے اس كا علاج كرائيں، اور ايسے اسباب تلاش كريں جو اس ميں ممد و معاون ہوں، يعنى شرح صدر اور راحت نفس وغيرہ.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب