منگل 7 شوال 1445 - 16 اپریل 2024
اردو

پردہ كے حكم پرعمل اور اس كى مخالفت سے بچنا

تاریخ اشاعت : 01-12-2010

مشاہدات : 7497

سوال

ہميں پردہ ـ چہرہ اور بال چھپانے ـ كے حكم كا علم ہے، ليكن ميرى كچھ مسلمان سہيلياں اپنے سر كے بال نہيں ڈھانپتيں، اسى طرح اس ميں بھى جھگڑا ہے كہ اگر وہ اپنے بال باندھ ليں تو كھلے بال ركھنے سے كم گناہ ہے، اور يہ بھى كہ لمبے بالوں كو كھلا چھوڑنا چھوٹے بالوں كو كھلا چھوڑنے سے زيادہ بڑى معصيت و گناہ ہے، تو كيا يہ بات صحيح ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جب اللہ سبحانہ و تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كوئى حكم ديں تو مسلمان شخص پر واجب ہے كہ اس حكم كے بارہ ميں سمعنا وا اطعنا كہے، اور جتنى جلدى ہو اس حكم پر عمل كرے، كيونكہ ايمان كا تقاضا بھى يہى ہے.

اللہ تعالى كا فرمان ہے:

اور ( ديكھو ) كسى مومن مرد و عورت كو اللہ تعالى اور اس كے رسول كے فيصلہ كے بعد اپنے كسى امر كا كوئى اختيار باقى نہيں رہتا، اور جو كوئى بھى اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى نافرمانى كريگا وہ صريح گمراہى ميں پڑيگا الاحزاب ( 36 ).

شيخ عبد الرحمن السعدى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

اور كسى بھى مومن مرد و عورت كے ليے يعنى: كسى بھى ايماندار شخص كے لائق اور شايان شان يہى ہے كہ وہ اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى رضامندى كا كام سرانجام ميں دينے ميں جلدى كرے، اور جس سے اللہ اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ناراض ہوں اس سے دور بھاگے، اور اللہ اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كے حكم كو بجا لائے، اور جن امور سے منع كيا ہے ان سے رك جائے، چنانچہ نہ تو كسى مومن مرد اور نہ ہى كسى مومن عورت كے لائق ہے كہ وہ مخالفت كرے.

جب اللہ تعالى اور اس كے رسول كوئى فيصلہ كر ديں .

كوئى بھى فيصلہ كريں تو وہ اس كو قطعى فيصلہ تسليم كريں اور لازم كر ليں.

كہ انہيں اپنے كسى معاملہ ميں كوئى اختيار نہيں رہ جاتا .

يعنى كوئى اختيار نہيں كہ آيا وہ اس پر عمل كريں يا نہ كريں ؟ بلكہ مومن مرد اور عورت كو معلوم ہونا چاہيے كہ اس كى اپنى جان سے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم زيادہ اولى و حقدار ہيں، اس ليے وہ اپنى كسى خواہش كو اپنے اور اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كے كسى حكم كے درميان حجاب اور آڑ نہ بنائے.

اور جو كوئى بھى اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى نافرمانى كى كريگا وہ صريحا گمراہى ميں پڑ گيا .

يعنى واضح اور صريح گمراہى ميں؛ كيونكہ اس نے وہ صراط مستقيم جو اللہ تعالى كى جانب لے جانا والا ہے اسے چھوڑ كر دوسرا راہ جو المناك عذاب كى جانب لے جانے والا ہے اختيار كر ليا، تو يہاں شروع ميں وہ سبب ذكر كيا جو اللہ تعالى اور اس كے رسول كى عدم نافرمانى كا موجب ہے، اور وہ ايمان ہے، پھر اس ميں مانع كا ذكر كيا جو كہ گمراہى كا خوف ہے، جو سزا اور عبرت پر دلالت كرتا ہے " انتہى.

ديكھيں: تفسير السعدى ( 612 ).

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں بتايا ہے كہ جو شخص بھى ان كى نافرمانى كريگا وہ جنت ميں نہيں جانا چاہتا !!

امام بخارى رحمہ اللہ نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ميرى سارى امت جنت ميں داخل ہو گى، ليكن جو شخص جنت ميں جانے سے انكار كر دے "

صحابہ كرام نے عرض كيا:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كون شخص ہے جو جنت ميں داخل ہونے سے انكار كريگا ؟

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس نے ميرى اطاعت وفرمانبردارى كى وہ جنت ميں داخل ہوا، اور جس نے ميرى نافرمانى كى اس نے جنت ميں جانے سے انكار كيا "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 7280 ).

پہلى عورتوں كى حالت تو يہ تھى كہ جيسے ہى پردہ كا حكم نازل ہوا وہ فورا اس كى تنفيذ كى طرف لپكيں، حتى كہ انہوں نے اس حكم پر جلد عمل كرنے كے ليے اپنے كپڑوں كو دو حصوں ميں پھاڑ ليا، جو كہ ايمان بھى اسى ك متقاضى ہے.

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:

" اللہ تعالى مہاجر عورتو پر رحم فرمائے جب اللہ تعالى نے يہ آيت

اور وہ اپنى اوڑھنياں اپنے گريبانوں پر ڈالے رہيں .

نازل ہوئى تو انہوں نے اپنى چادريں پھاڑ كر اوڑھ ليں "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 4102 ) امام بخارى نے اسے معلقا بيان كيا ہے، اور صحيح ابو داود ميں علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے صحيح قرار ديا ہے.

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس كى شرح كرتے ہوئے كہتے ہيں:

" مروطھن " يہ مرط كى جمع ہے، اور نيچے باندھنے والى تہہ بند كو مرط كہا جاتا ہے.

" فاختمرن " يعنى انہوں نے اس سے اپنے چہروں كو ڈھانپ ليا "

ديكھيں فتح البارى ( 8 / 490 ).

چنانچہ ان بہنوں كن ہمارى نصيحت ہے كہ وہ بغير كسى حيل و حجت اور ليت و لعل كے اللہ تعالى كے اس حكم كے سامنے سر تسليم خم كرتے ہوئے اس پر عمل كريں، اور وہ اس حكم كے كسى بھى حصہ كو ترك كرنے اور كسى پر عمل كرنے كى كوشش نہ كريں بلكہ پورے حكم كو نافذ كريں عورت پر واجب ہے كہ وہ اپنے بال چہرہ اور سارا بدن چھپائے، اور اس كے ليے غير محرم مردوں كے سامنے كچھ بھى ظاہر كرنا حلال نہيں.

اور جو كوئى عورت بھى ايسا كريگى وہ اپنے آپ كو وعيد كے سامنے پيش كر رہى ہے، جس قدر اس ميں اللہ تعالى كے حكم كو تسليم كرنے ميں كمى ہو گى ا سكا ايمان بھى اس قدر ہى كم ہو گا.

سوال نمبر ( 11774 ) كے جواب ميں چہرے كے پردہ كے متعلق تفصيلى حكم بيان ہو چكا ہے، آپ ا سكا مطالعہ كريں.

اور سوال نمبر ( 6244 ) كے جواب ميں اس سوال كا جواب پيش كيا گيا ہے كہ: عورت اپنے بال كيوں ڈھانپ كر ركھے گى ؟ آپ اس كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

اور سوال نمبر ( 214 ) اور ( 6991 ) كے جوابات ميں صحيح پردہ كا تفصيلى طريقہ بيان ہوا ہے، آپ ا سكا بھى ضرور مطالعہ كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب