جمعہ 10 شوال 1445 - 19 اپریل 2024
اردو

زخم كى بنا پر پٹى بندھى ہو تو وضوء اور غسل كس طرح كرے

تاریخ اشاعت : 05-12-2010

مشاہدات : 9730

سوال

اگر كوئى عضو زخمى ہو تو كيا اس عضو كا تيمم اور باقى سارے اعضاء كو وضوء ميں دھويا جائيگا، يا صرف تيمم كر لے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اگر وضوء كا كوئى عضو زخمى ہو تو اس زخم پر يا تو پٹى ہو گى يا پھر يا بغير پٹى كے ہوگا.

اگر اس پر پٹى وغيرہ بندھى ہوئى ہو تو صحيح اعضاء دھو كر پٹى پر مسح كيا جائيگا، اور مسح كر لينے كے بع تيمم كى ضرورت نہيں رہتى.

پٹيوں پر مسح كرنے كے متعلق جتنى بھى احاديث مروى ہيں وہ سب ضعيف ہيں، صرف عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہ سے ثابت ہے.

بيھقى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اس ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے كچھ بھى ثابت نہيں..... تابعين عظام اور ان كے بعد والے فقھاء كا قول ہے، اس كے ساتھ ہميں جو ابن عمر كى روايت بيان كى گئى ہے، پھر انہوں نے اپنى سند كے ساتھ ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كيا ہے كہ:

" ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما نے وضوء كيا اور ان ك ہتھيلى پر پٹى بندھى ہوئى تھى چنانچہ انہوں نے ہتھيلى اور پٹى پر مسح كيا، اور باقى كو دھو ديا.

وہ كہتے ہيں: ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے صحيح ثابت ہے " انتہى.

ديكھيں: المجموع ( 2 / 368 ).

ليكن اگر زخم ننگا ہو تو اگر ممكن ہو تو اسے دھويا جائے، اور اگر دھونے سے نقصان كا انديشہ ہو اور اس پر مسح كرنا ممكن ہو تو مسح كرنا واجب ہے، اور اگر ايسا كرنا ناممكن ہو تو اس پر نہ تو مسح كيا جائے، اور نہ ہى دھويا جائے، پھر جب وضوء كر لے تو وہ تيمم كرے.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" علماء رحمہ اللہ كہتے ہيں: زخم يا تو ننگا ہو گا يا پھر چھپا ہوا.

اگر زخم ننگا ہو تو اسے دھونا واجب ہے، اور اگر مشكل ہو تو پھر اس پر مسح كيا جائے، اور اگر مسح كرنا بھى ممكن نہ ہو تو تيمم كرے، يہ بالترتيب ہوگا.

اور اگر كسى ايسى چيز سے زخم چھپا ہوا ہو جس سے چھپانا جائز ہے تو اس پر صرف مسم كيا جائيگا، اور اگر چھپا ہوا ہونے كے باوجود اس پر مسح كرنا نقصان دہ ہو تو پھر ننگا ہونے صورت كى طرح زخم پر تيمم كيا جائے، فقھاء رحمہم اللہ نے يہى بيان كيا ہے " انتہى.

ديكھيں: الشرح الممتع ( 1 / 169 ).

اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" اگر زخم پر پٹى بندھى ہوئى ہو تو اس پر مسح كيا جائے، اور اگر ننگا ہو تو اس كى طرف سے تيمم كيا جائے " انتہى.

ديكھيں: فتاوى ابن باز ( 10 / 118 ).

شيخ صالح فوزان حفظہ اللہ سے سوال كيا گيا:

ڈاكٹر ميرے ہاتھ پر سوئى والى جگہ سے خون نكلنے كى بنا پر اس جگہ كو صاف كر كے اس پر پٹى لپيٹ دے اورجب ميں اسے اتاروں تو خون رسنا شروع ہو جاتا ہے، صرف رات كے وقت خون بند ہوتا ہے، پٹى ہاتھ پر لپٹى رہتى ہے، كيا وضوء كرتے وقت ميرے ليے اس پٹى پر مسح كرنا جائز ہے، حالانكہ پٹى وضوء كر كے نہيں باندھى گئى، بلكہ خون لگا ہوا تھا اسى حالت ميں پٹى باندھ دى گئى، اور مسح كرنے كا طريقہ كيا ہو گا ؟

شيخ كا جواب تھا:

" زخم پر باندھى گئى پٹى نہيں كھولى جائيگى، اور خاص كر جب پٹى اتارنا نقصان دہ ہو اور خون نكلنا شروع ہو جائے، تو اس حالت ميں پٹى اتارنا جائز نہيں؛ كيونكہ اس ميں آپ كو خطرہ ہے اس ليے آپ اسے اسى طرح رہنے ديں، اور جب وضوء كريں تو جس ہاتھ پر پٹى نہيں اسے دھوئيں، ليكن جس پر پٹى بندھى ہے ہاتھ بھگو كر اس پٹى كے اوپر مسح كرنا ہى كافى ہے.

ضرورت كى بنا پر جتنى دير بھى يہ پٹى موجود رہے مسح كرنا ہى كافى ہے چاہے كئى اوقات يا كئى ايام تك ايسے ہے ہو، پٹى كے ليے شرط نہيں كہ وہ وضوء كر كے باندھى جائے، صحيح يہى ہے كہ اگر بغير وضوء ہى پٹى باندھى جائے اور چاہے سوئى والى جگہ يا زخم پر خون بھى ہو.

حاصل يہ ہوا كہ: پٹى بندھى رہنے ميں كوئى نقصان نہيں، بلكہ مصلحت كى بنا پر اس كا باقى رہنا متعين ہے، اور جب ہاتھ دھويا جائے تو پٹى پر مسح كر ليا جائے " انتہى.

ديكھيں: المنتقى من فتاوى الشيخ الفوزان ( 5 / 15 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب