جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

اعتكاف ميں نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم كا طريقہ

سوال

ميں يہ جاننا چاہتا ہوں كہ اعتكاف ميں نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم كا طريقہ كيا تھا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اعتكاف ميں نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم كا طريقہ كامل آسان تھا.

نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے رمضان المبارك ميں ليلۃ القدر كي تلاش ميں ايك بار رمضان كا پہلا اور درميانہ عشرہ اعتكاف كيا، پھر ان پريہ ظاہر ہوا كہ ليلۃ القدر آخري عشرہ ميں ہے تورسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے آخري عشرہ كا اعتكاف ہميشگي كےساتھ كرنا شروع كرديا حتي كہ اپنے رب سے جاملے.

نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے زندگي ميں ايك بار آخر عشرہ كا اعتكاف نہ كيا تواس كي قضاء ميں شوال كا پہلا ہفتہ اعتكاف كيا . صحيح بخاري اور صحيح مسلم .

اور جس برس نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم كي وفات ہوئي اس برس نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے بيس روز كا اعتكاف كيا . ديكھيں: صحيح بخاري حديث نمبر ( 2040 ) .

كہا جاتا ہے كہ: اس كا سبب يہ تھا كہ نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم كو اپني موت كا علم ہوچكا تھا اس ليے انہوں نےچاہا كہ خيروبھلائي كےكام زيادہ كرليےجائيں تا كہ وہ اپني امت كےليے يہ بيان كرديں كہ جب وہ آخر اعمال ميں پہنچيں تو اعمال صالحہ كثرت سے كرنے كي كوشش كريں تا كہ وہ اللہ تعالي سے بہتر حالت ميں مل سكيں.

اور يہ بھي كہا گيا ہے كہ: اس كا سبب يہ تھا كہ جبريل عليہ السلام ہر رمضان ميں نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم كےساتھ قرآن مجيد كا ايك بار دور كيا كرتےتھے اورجس سال نبي صلي اللہ عليہ وسلم كي روح قبض ہوئي اس برس دوبار دور كياتو اسي ليے نبي صلي اللہ عليہ وسلم دوبار جتنا اعتكاف كيا .

اور اس سے بھي قوي سبب يہ ہےكہ نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم نےجس برس بيس ايام كا اعتكاف كيا اس سےپہلے برس آپ سفر پر تھے، اس كي دليل مندرجہ ذيل حديث ہے:

( ابي بن كعب رضي اللہ تعالي عنہ بيان كرتےہيں كہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم رمضان المبارك كا آخري عشرہ اعتكاف كيا كرتےتھے توايك سال آپ سفر پر چلےگئے اوراعتكاف نہ كرسكے لھذا آئندہ برس نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم نےبيس يوم كا اعتكاف كيا . اسے نسائي اور ابوداود نے روايت كيا ہے اوريہ الفاظ نسائي شريف كےہيں، اور ابن حبان وغيرہ نےاسے صحيح قرار ديا ہے . اھ فتح الباري .

نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم خيمہ لگانے كاحكم ديتےتو ان كےليے مسجد ميں خيمہ نصب كرديا جاتا تورسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم لوگوں سے عليحدگي ميں اس خيمہ ميں رہتےاور اپنےرب سے لگاؤ لگاليتے حتي كہ واقعتا ان كےليے خلوت پوري ہوگئي .

اور ايك بار نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے چھوٹےسے تركي خيمہ ميں اعتكاف كيا اور اس كےدروازے پر چٹائي لٹكائي گئي تھي . صحيح مسلم حديث نمبر ( 1167 )

ابن قيم رحمہ اللہ تعالي زاد المعاد ميں كہتےہيں:

يہ سب كچھ اعتكاف كا مقصد اور اس كي روح كےحصول كےليےہے، اس كےبرعكس جوكچھ جاھل لوگ كرتےہيں اور اعتكاف كو عيش وعشرت اور ملنے جلنے كي جگہ بناليتے ہيں ، اور وہاں آپس ميں گفتگو اور گپيں ہانكتے رہتےہيں تواعتكاف كا ايك رنگ تويہ ہے اور اعتكاف نبوي كا رنگ اور ہے.

ديكھيں: زاد المعاد ( 2 / 90 )

اور نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم اعتكاف كي حالت ميں مسجد كےاندر ہي رہتے وہاں سے صرف ضرورت كي بنا پر ہي باہر تشريف لےجاتےتھے.

عائشہ رضي اللہ تعالي عنھا بيان كرتي ہيں كہ: جب رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم اعتكاف كي حالت ميں ہوتےتو ضرورت كےبغيرگھر ميں تشريف نہيں لاتےتھے . صحيح بخاري حديث نمبر ( 2029 ) اور مسلم كي روايت ميں يہ الفاظ ہيں كہ: ( انساني حاجت كےبغير نہيں آتےتھے ) امام زھري رحمہ اللہ تعالي نے اس كي ہے كہ پيشاب اور پاخانہ كےليے باہر نكلتے.

نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم دوران طواف اپني صفائي كا بھي خيال ركھتےاور مسجد سے ہي اپنا سر مبارك عائشہ رضي اللہ تعالي عنھا كےحجرہ ميں كرتے تووہ نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم كا سر دھوتيں اور كنگھي كرديتي تھيں .

عائشہ رضي اللہ تعالي عنھا بيان كرتي ہيں كہ: نبي صلي اللہ عليہ وسلم اعتكاف ميں ہوتے تو ميري طرف اپنا سر كرتے تو ميں حالت حيض ميں ہي انہيں كنگھي كرتي تھي .

اور ايك روايت ميں ہےكہ: ميں ان كا سر دھوتي تھي. صحيح بخاري حديث نمبر ( 2028 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 297 ) تسريح كا معني سر ميں كنگھي كرنا ہے.

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالي كہتےہيں:

اور حديث ميں خوشبولگانے اور صفائي اور غسل كرنے مونڈنے اور بناؤ وسنگھار كرنے كا جواز پايا جاتا ہے، اور جمہور علماء اسي پرہيں كہ اعتكاف ميں وہي چيز مكروہ ہے جومسجد ميں مكروہ ہے. اھ

اور رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم كا يہ طريقہ تھا كہ جب آپ اعتكاف كي حالت ميں ہوتے نہ تو مريض كي عيادت كرتےاور نہ ہي جنازہ ميں شريك ہوتے، يہ اس ليے تھا كہ سارا وقت اللہ تعالي سےمناجات پرتوجہ مركوز رہے، اور اعتكاف كي حكمت پوري اور مكمل ہواور وہ حكمت لوگوں سے عليحدگي اور اللہ تعالي كےساتھ لگاؤ ہے.

عائشہ رضي اللہ تعالي عنھا بيان كرتي ہيں كہ : ( اعتكاف كرنےوالے كے ليےسنت طريقہ يہ ہے كہ وہ نہ تومريض كي عيادت كےليےجائے اور نہ ہي جنازہ ميں شريك ہو، اور نہ ہي بيوي سے مباشرت كرے اور اسے چھوئے، اور كسي بھي ضرورت كےليے وہاں سے نہ نكلے ليكن جس ضرورت كےپورے كيے بغير كوئي چارہ نہ ہو اس كےليے نكل سكتا ہے ) سنن ابوداود حديث نمبر ( 2473 ) علامہ الباني رحمہ اللہ تعالي نےاس حديث كو صحيح ابوداود ميں صحيح قرار دياہے.

امام شوكاني رحمہ اللہ تعالي نيل الاوطار ميں كہتےہيں:

" بيوي كونہ تو چھوئے اور نہ ہي مباشرت كرے" اس سے عائشہ رضي اللہ تعالي عنھانے جماع مراد ليا ہے .

نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم جب اعتكاف كي حالت ميں ہوتےميں نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم كي بعض ازواج مطھرات آپ كي زيارت كےليے تشريف لاتيں تواورجب وہ جانےكےليے اٹھتيں توآپ انہيں گھر تك پہنچانے كے ليے ان كےساتھ تشريف لےجاتے، اور يہ رات كےوقت ہوتا تھا.

نبي صلي اللہ عليہ وسلم كي زوجہ ام المؤمنين صفيہ رضي اللہ تعالي عنھا بيان كرتي ہيں كہ وہ رمضان كےآخري عشرہ ميں نبي صلي اللہ عليہ وسلم كي زيارت كےليے مسجد ميں ان كےاعتكاف والي جگہ ميں آئيں اور كچھ دير ان كے ساتھ بات چيت كرتي رہيں ، اور پھر واپس جانےكےليے اٹھيں تو رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم بھي ان كےساتھ انہيں واپس پہنچانےليےاٹھ كھڑے ہوئے. يعني ان كےگھرپہنچانےكےليے. صحيح بخاري ( 2035 ) صحيح مسلم ( 2175 )

خلاصہ يہ ہوا كہ: رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم كا اعتكاف آسان وسھولت كانشان تھا نہ كہ سختي وشدت كا، اوررسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم كا سارا وقت اللہ تعالي كےذكراور ليلقۃ القدر كي تلاش ميں اللہ تعالي كي طرف متوجہ رہنے اوراس كي اطاعت وفرمانبرداري ميں بسرہوتا تھا.

مزيد تفصيل كےليے ابن قيم كي زاد المعاد ( 2 / 90 ) اور ڈاكٹر عبداللطيف بالطوكي الاعتكاف نظريۃ تربويۃ ديكھيں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب