الحمد للہ.
اول:
عمومى اور خصوصى محكموں ميں ملازم كو اسلامى فقہ ميں پرائيويٹ مزدور كا نام ديا گيا ہے، اور خاص مزدور وہ ہوتا ہے جس كا كسى كے ساتھ معاہدہ ہو كہ وہ ايك معين مدت تك كام كريگا، اور اس وقت ملازمت اور ڈيوٹى ميں فى الواقع ايسا ہى ہوتا ہے، كہ ہر روز گھنٹوں كے حساب سے معاہدہ كيا جاتا ہے.
خاص مزدور كے متعلق فقھاء كرام نے اپنى مطول كتابوں ميں فقھى احكام بيان كيے ہيں جس ميں يہ بھى شامل ہے:
يہ مزدور اپنى اجرت كا مستحق اسى وقت ٹھرےگا جب وہ مطلوبہ كام جس پر معاہدہ ميں اتفاق ہوا تھا مكمل نہ كر لے.
الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:
" كام كے مالك كو ملازم كى اجرت دينا اس وقت لازم ہے جب وہ ملازم اپنا آپ اس كے سپرد كر دے، ليكن شرط يہ ہے كہ وہ مطلوبہ كام كرنے سے انكار نہ كرے، اور اگر وہ بغير كسى حق كے كام سے انكار كرتا ہے تو پھر اجرت كا حقدار نہيں، اس ميں كوئى اختلاف نہيں ہے " انتہى
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 1 / 292 ).
اور مستقل فتاوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:
" جو شخص بھى كسى كام كے بدلے تنخواہ اور اجرت كا متقاضى ہو وہ كام اس كے سپرد كيا جائے تو اسے وہ كام كرنا مطلوبہ طريقہ پر كرنا ضرورى ہے، اور اگر وہ اس ميں بغير كسى شرعى عذر كے خلل پيدا كرتا ہے تو اس كے ليے اس كام كے بدلے ميں مطلوبہ تنخواہ اور اجرت لينى حلال نہيں " انتہى.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 15 / 153 ).
دوم:
اگر پرائيويٹ يا خاص ملازم كوئى چيز ضائع كر دے ( مثلا كام كرنے والے آلہ جات ميں سے كوئى آلہ اور مشين وغيرہ ) تو كيا وہ اس كا ضامن ہو گا، اور اسے اس كى قيمت ادا كرنا ہو گى يا نہيں ؟
اس كا جواب يہ ہے كہ:
يہ دو حالتوں سے خالى نہيں:
پہلى حالت:
وہ خرابى اس كى زيادتى يا كوتاہى كى بنا پر ہو، مثلا اگر كوئى ملازم آلات كو غلط استعمال كرے تو اس كى بنا پر وہ خراب يا ضائع ہو جائے، يا اس نے اپنے ذمہ وہ كام ليا جس كى وہ استطاعت ہى نہيں ركھتا، يا اس نے كام صحيح طريقہ سے نہ كيا ہو، يا كام ميں سستى كى ... الخ
تو اس حالت ميں فقھاء كرام كے بغير كسى اختلاف كے وہ اس چيز كا ضامن ہو گا، اور مالك كو حق حاصل ہے كہ وہ اس كى تنخواہ اور اجرت سے تلف اور ضائع كردہ چيز كى قيمت كاٹ لے.
دوسرى حالت:
ملازم كى كوتاہى يا زيادتى كے بغير ہى وہ چيز تلف اور ضائع ہو جائے اس ميں علماء كرام كا اختلاف ہے، اكثر علماء كے ہاں ملازم ضامن اس صورت ميں ہوگا جب اس كى زيادتى يا كوتاہى كى بنا پرچيز ضائع ہوئى ہو.
اور بعض علماء مثلا امام شافعى كا اپنے ايك قول ميں يہ كہتے ہيں كہ وہ ضامن ہو گا.
ديكھيں: تكملۃ المجموع ( 15 / 354 ) الموسوعۃ الفقھيۃ ( 1 / 290 ).
اور يہ مسئلہ اجتھادى مسائل ميں شامل ہوتا ہے، اس ليے اگر مالك چاہے كمپنى ہو يا كوئى شخص مزدور ضامن ہونے والے قول پر عمل كرتے ہوئے كٹوتى كرے تو اس كا انكار نہيں كيا جائيگا، ليكن اسے اس غلطى كے مطابق وہ كٹوتى كرنى چاہيے، اور اس ميں كسى بھى قسم كا ظلم نہ ہو، اور اگر ملازم اور مالك اس كى تحديد اور تعيين ميں اختلاف كريں تو پھر اس كا فيصلہ شرعى قاضى كريگا.
ليكن اگر ملازم نے كوئى ايسى غلطى كى جس كے نتجيہ ميں مال تلف يا ضائع نہ ہوتا ہو مثلا ملازم ڈيوٹى پر تاخير سے آيا يا بغير كسى عذر كے غائب رہا ... الخ تو كيا مالك كے ليے تنخواہ ميں سے كٹوتى كرنى جائز ہے يا نہيں ؟
اس كا جواب يہ ہے كہ:
جى ہاں اسے حق ہے، اس طرح كى بعض اشياء تو معاہدہ ميں بيان ہوتى ہيں، يا پھر كمپنى كے داخلى قوانين ميں بھى ہيں، اور پھر اس پر لوگ عمل كر رہے، ملازم كمپنى ميں ملازمت كرتا ہے اور اسے يہ علم ہے كہ اگر اس نے كام ميں كوتاہى كى، يا كمپنى كے نظام كى مخالفت كى تو اسے سزا مل سكتى ہے، جس ميں تنخواہ كى كٹوتى بھى شامل ہے، تو اگر يہ معاہدہ ميں بيان نہ بھى ہوا ہو تو پھر بھى يہ چيز معروف ہے، اور لوگ اس پر عمل كر رہے ہيں.
ليكن مالك يا مينجر كو عدل و انصاف سے كام لينا چاہيے، اور اسے ظلم و ستم سے اجتناب كرنا چاہيے، اس ليے كٹوتى بھى غلطى اور كوتاہى كے مطابق ہى ہونى چاہيے، اور اس ميں مبالغہ سے كام نہيں لينا چاہيے.
مستقل فتوى كميٹى كے علماء سے درج ذيل سوال كيا گيا:
اگر ميں كسى نگران عورت يا ملازمہ كو ملازمت سے نكالوں يا اس كى تنخواہ ميں كٹوتى ميں سختى كرو تا كہ وہ اپنى حالت درست كر لے تو كيا يہ حرام ہے ؟
كميٹى كے علماء كا جواب تھا:
" ملازم يا ملازمہ كى تنخواہ سے كٹوتى يا اسے ملازمت سے نكالنا جائز نہيں، ليكن ان حدود اور نظام كے اندر رہ كر جسے حكمران نے متعين كيا ہے " انتہى.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 23 / 410 ).
سوم:
ميرے عزيز بھائى آپ نے كئى ايك غلطياں كى ہيں، جيسا كہ آپ نے سوال ميں ذكر كيا ہے، اگر تو آپ ديكھيں كہ كٹوتى غلطى كے حساب سے زيادہ ہے، يا پھر غلطى چھوٹى اور غير معتبر تھى، اور دوسرى كمپنيوں ميں اس طرح كى غلطى پر كٹوتى نہيں ہوتى تو پھر آپ كے سامنے كمپنى كے ذمہ داران كے سامنے شكايت كے علاوہ كوئى اور راستہ نہيں، آپ اپنا موقف ان كے سامنے بيان كريں، اور اگر وہ كٹوتى پر اصرار كرتے ہيں، اور آپ ان كے دلائل سے مطمئن نہيں ہوتے تو آپ شرعى عدالت سے رجوع كريں، جو ان شاء اللہ آپ كے مابين فيصلہ كريگى.
رہا يہ مسئلہ كہ آپ كے دل ميں يہ بات آئى ہے كہ آپ جان بوجھ كر ڈيوٹى سے غائب ہو جائيں، يا پھر تاخير سے آئيں، يا كام ميں كوتاہى كريں، يا غير مشروع طريقہ سے كٹوتى والى رقم واپس ليں ـ جيسا كہ بعض ملازمين كرتے ہيں ـ تو يہ مومنوں كى راہ نہيں، اور نہ ہى ايسا كرنا جائز ہے، كيونكہ متنازع حقوق كى واپسى كا فيصلہ تو عدالت كے فيصلہ سے ہى ہوتا ہے، اور اس ميں لوگوں كو خواہشات اور اپنے نفسوں كا دخل نہيں.
مستقل فتوى كميٹى كے علماء سے درج ذيل سوال كيا گيا:
كيا اپنى مزدورى كے نقصان اور كمى كے عوض ميں كسى شخص كا نيشنل كمپنى سے بغير اجازت كوئى چيز لينا چورى اور حرام شمار ہوتا ہے ؟
كميٹى كے علماء كا جواب تھا:
جى ہاں يہ حرام شمار ہوتا ہے، اور اگر اس كا واضح حق ہو تو وہ محكمہ كے ذريعہ اسے طلب كر سكتا ہے " انتہى.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 19 / 221 ).
اور فتاوى جات ميں يہ بھى درج ہے:
مالك نے ايك ملازم پر ظلم كرتے ہوئے اس كى تنخواہ سے كٹوتى كر لى اس كا حكم كيا ہے ؟
كميٹى كے علماء كا جواب تھا:
" اور جب آپ اور مالك كے مابين اختلاف ہو جائے تو آپ كو شرعى عدالت سے رجوع كرنا چاہيے، تا كہ وہ آپ كے قضيہ اور معاملہ كو ديكھ كر فيصلہ كرے، اور آپ كے ليے مالك كے علم اور اس كى اجازت كے بغير اس كا مال لينا جائز نہيں " انتہى.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 15 / 123 ).
اور يہ بھى درج ہے:
" آپ كے ليے اپنى باقى مانندہ تنخواہ كے برابر ميں مالك كے علم كے بغير مال لينا جائز نہيں، ليكن آپ كو يہ حق ہے كہ آپ اپنے بقيہ جات شرعى طريقہ سے حاصل كريں، چاہے شرعى عدالت ميں مقدمہ كر كے ہى " انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 15 / 144 ).
شيخ ابن باز رحمہ اللہ سے ريڈيو پروگرام " فتاوى نور على الدرب " ميں درج ذيل سوال كيا گيا:
ميں ايك نوجوان كسى كمپنى ميں ملازمت كرتا ہوں، ايسا ہوا كہ بغير كسى وجہ اور حق كے ميرى كٹوتى كر لى گئى، يہ تو ايك طرف سے ہے، اور دوسرى طرف ميں نے كچھ ايسے كام كيے تھے جس كى بنا پر ميں الاونس كا مستحق تھا، ليكن انہوں نے يہ بھى مجھے نہ ديے، تو ميں درج ذيل كام كرنے پر مجبور ہوا:
جب ميں كمپنى كے ليے اشياء خريدتا تو ماركيٹ سے مجھے اچھا خاصہ ڈسكاؤنٹ ملتا، ليكن يہ ميرے اور ماركيٹ والوں كے مابين تھا، اور ميں يہ ڈسكاؤنٹ كى رقم اپنى جيب ميں ركھ ليتا، بل سو كا ہوتا تو اس ميں سے پچيس ميرے؛ يہ علم ميں رہے كہ بل كے ريٹ باقى دوكانوں جتنے ہى ہوتے ہيں، يعنى بل كا ريٹ ماركيٹ كے طبعى ريٹ سے زيادہ نہيں، ليكن اشياء زيادہ خريدنے كى بنا پر مجھے ڈسكاؤنٹ زيادہ ملتا جو بل ميں درج نہيں كيا جاتا تھا ؟
اس كى روشنى ميں آپ ميرى راہنمائى كريں:
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" آپ كے ليے ضرورى ہے كہ آپ ان كے ساتھ حساب و كتاب كريں اور انہيں ڈسكاؤنٹ ديں، تا كہ معاملہ واضح ہو جائے، ہو سكتا ہے آپ جسے اپنا حق كہتے ہيںاس ميں متساہل ہوں، اس ليے آپ كے ليے ضرورى ہے كہ مسئلہ آپ اور ان كے مابين كسى صلح كروانے والے كے ذريعہ سلجھايا جائے يا پھر عدالت كے ذريعہ، يا آپ آپس ميں ہى اس كو طے كر ليں، آپ كے ليے ضرورى يہى ہے كہ آپ صرف اپنا حق ليں " انتہى.
پروگرام: فتاوى نور على الدرب كيسٹ نمبر ( 410 ).
واللہ اعلم .