اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

حج اورعمرہ میں نیت کے الفاظ کی ادائيگي کرنا

سوال

چونکہ نیت کے الفاظ کی ادائيگي بدعت ہے توپھرحج اورعمرہ کی نیت کے الفاظ کی ادائيگي کا حکم کیا ہوگا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

الحمدللہ

نیت کی جگہ دل ہے اوراس کے الفاظ کی ادائيگي بدعت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام رضي اللہ تعالی عنہم سے یہ ثابت نہیں کہ انہوں نے کسی بھی عبادت سے قبل نیت کے الفاظ کی ادائيگي کی ہو۔

حج اورعمرہ میں تلبیہ کی ادائيگي نیت نہيں ہے ۔

شیخ ابن باز رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

نیت کی زبان سے ادائيگي بدعت ہے اورپھر اسے بلند آواز سے کہنا تو اوربھی زيادہ شدید گناہ ہے ، بلکہ سنت تویہ ہے کہ دل سے نیت کی جائے ، کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی خفیہ وپوشیدہ کا علم رکھتا ہے اوراسی اللہ سبحانہ وتعالی کا یہ بھی فرمان ہے :

کہہ دیجئے ! کہ کیا تم اللہ تعالی کواپنی دینداری سے آگاہ کررہے ہو ، جوچيزآسمانوں اورزمینوں میں ہے اللہ تعالی اس سے بخوبی آگاہ ہے الحجرات ( 16 ) ۔

اورپھرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین سے بھی اورنہ ہی آئمہ کرام سے نیت کے الفاظ کی ادائيگي ثابت ہے ، تواس سے یہ علم ہوا کہ ایسا کرنا مشروع نہيں بلکہ ایجاد کرہ بدعات میں سے ہے ، اللہ تعالی ہی توفیق بخشنے والا ہے ۔ دیکھیں فتاوی اسلامیۃ ( 2 / 315 ) ۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

نیت کےالفاظ کی ادائيگي نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہ تونماز میں اورنہ ہی وضوء اورنہ ہی روزے اورنہ ہی کسی دوسری عبادت میں ثابت ہيں ، حتی کہ حج اورعمرہ میں جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم حج یا عمرہ کا ارادہ کرتے تویہ ثابت نہيں کہ آپ یہ کہتے : اے اللہ میں یہ یہ کرنا چاہتا ہوں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت نہيں اورنہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام میں سے کسی ایک کوایسا کرنے کا حکم دیا ۔

اس معاملہ میں جوانتہائي اورآخری چيزثابت ہے وہ یہ کہ جب ضباعۃ بنت زبیر رضي اللہ تعالی عنہما نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ شکایت کی کہ وہ حج اورعمرہ توکرنا چاہتی ہے لیکن بیمار ہے تورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہيں فرمایا کہ تم حج کرو لیکن شرط رکھ لو کہ ( محلي حيث حبستني ) میرے حلال ہونے کی جگہ وہی ہے جہاں مجھے توروک دے ، اس لیے تیرے لیے وہی ہوگا جوتواپنے رب پرمستثنی کردے گی ۔

تویہاں ان الفاظ کی ادائيگي زبان سے ہوئي ، وہ بھی اس لیے کہ حج کا عقد بھی نذر کی مانند ہے اورنذر زبان سے ساتھ مانی جاتی ہے ، اس لیے کہ اگرکوئي انسان اپنے دل میں نذر کی نیت کرلے تویہ نذر نہيں اورنہ ہی منعقد ہوگي ، توجب حج کونذر کی مانندشروع کرنےکےبعد اسے بھی پورا کرنا لازمی اورضروری ہوا تورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے زبان سے شرط رکھنے کا حکم دیا کہ وہ یہ الفاظ ادا کرے : ( إن حبسني حابس فمحلي حيث حبستني ) اگرمجھے کسی روکنے والے نے روک دیا توجہاں مجھے روکے وہیں میرے حلال ہونے کی جگہ ہوگي ۔

اورجوحدیث میں یہ ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : میرے پاس جبریل علیہ السلام آئے اورکہا کہ اس وادی مبارک میں نماز ادا کرو اوریہ کہو: حج میں عمرہ یا عمرہ اورحج ، تواس کا معنی یہ نہيں کہ یہ نیت کےالفاظ کی ادائيگي ہے ، بلکہ اس کامعنی یہ ہے کہ وہ تلبیہ میں اپنی نسک کا ذکر کريں ، وگرنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تونیت کے الفاظ کی ادائيگي نہيں فرمائي ۔ دیکھیں : فتاوی اسلامیہ ( 2 / 216 ) ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب