سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

کافر کو اگر تالیف قلب کیلئے زکاۃ دی جائے تو جائز ہے، وگرنہ نہیں

تاریخ اشاعت : 03-05-2014

مشاہدات : 9096

سوال

كيا كافر كو زكاۃ دينى جائز ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

كافر كو زكاۃ دينى جائز نہيں، ليكن اگر وہ تاليف قلب والے لوگوں ميں شامل ہوتا ہو تو جائز ہے۔

ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى اپنى كتاب " المغنى " ( 4 / 106 )ميں كہتے ہيں:

"كافر كو زكاۃ نہ دينے كے متعلق اہل علم کے كسى اختلاف كا ہمیں علم نہيں ہے۔ جیسے کہ ابن منذر رحمہ اللہ کہتے ہیں: اہل علم ميں جس سے بھى ہم نے علم حاصل كيا ہے وہ سب اس پر متفق ہيں كہ ذمى كو زكاۃ كے مال سے كچھ بھى نہيں ديا جائےگا، اور اس ليے بھى كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے معاذ رضى اللہ تعالى عنہ كو فرمايا تھا:

( انہيں يہ بتانا كہ ان پر زكاۃ واجب ہے جو ان ميں سے مالدار افراد سے ليكر ان كے فقراء ميں تقسيم كى جائے گى)

تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ زكاۃ صرف كرنے ميں مسلمانوں كى تخصیص كى كہ زكاۃ ان ( يعنى فقیر مسلمانوں ) ميں تقسيم كى جائے، جيسا كہ ان مسلمانوں كو خاص كيا كہ كہ مالدارمسلمانوں پر زكاۃ واجب ہے۔ انتہى

چنانچہ اگر كافر تاليف قلب والے افراد ميں شامل ہوتا ہو تو اسے زكاۃ دينى جائز ہے۔

اس بارے میں اللہ تعالى كا فرمان ہے:

( إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاء وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِّنَ اللّهِ وَاللّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ )

ترجمہ: زكاۃ تو صرف فقراء، مساكين، اور اس پر كام كرنے والے، اور تاليف قلب ميں، اور غلام آزاد كرانے ميں، اور قرض داروں كے ليے، اور اللہ كے راستے ميں، اور مسافروں كے ليے ہے، يہ اللہ تعالى كى طرف سے فرض كردہ ہے، اور اللہ تعالى علم والا اور حكمت والا ہے ۔ التوبۃ /60

لہذا اگر ہميں اميد ہو كہ كافر كو زكاۃ دينے سے وہ مسلمان ہو جائيگا تو اسے زكاۃ دينى جائز ہے۔

ديكھيں: الشرح الممتع ( 6 / 143 - 145 )

ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنى "( 4 / 108 )ميں رقمطراز ہيں:

اگر كافر تالیف قلب والے افراد ميں شامل نہ ہو تو كافر كو زكاۃ دينى جائز نہيں۔

اور الموسوعۃ(14/233) ميں ہے:

اس كافر كو زكاۃ دى جائيگى جس كے اسلام قبول کرنے کی اميد ہو، تا کہ اسے اسلام كى طرف راغب کیا جائے، اور اس كا نفس اسلام كى طرف مائل ہو" مختصراً

اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ سے دريافت كيا گيا:

كيا ذمى كو زكاۃ دينا صحيح ہے؟

تو شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:

جمہور كے قول كے مطابق زكاۃ ذمى یا دیگر کفار كو نہيں دى جاسکتی، اور یہی صحيح ہے اس كے دلائل ميں بہت سارى آيات اور احاديث ہيں كيونكہ زكاۃ فقیر و محتاج مسلمان كى غمخوارى اور ان كى ضروريات کو پورا کرنے کیلئے ہوتی ہے، لہذا اسے مسلمان فقراء اور باقى آٹھ مصارف زكاۃ كے مابين ہى تقسيم كرنا واجب ہے، ليكن اگر كافر تاليف قلب والے لوگوں ميں شامل ہوتا ہو، کہ اسکی شخصیت اپنے کنبے قبیلے میں با اثر شخصیت ہے تو اسے اسلام کے قریب کرنے کیلئے اور مسلمانوں کو اس کے شر سے محفوظ رکھنے کیلئے زکاۃ دی جاسکتی ہے، اور اسى طرح كسى نو مسلم كو ايمان پر پکا کرنے کیلئے زكاۃ دينى جائز ہے، کفار کو زکاۃ دینے کیلئے علمائے کرام نے دیگر اسباب بھی بیان کئے ہیں جن کی بنا پر زكاۃ دى جاسکتی ہے۔

اس كى دليل اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

( إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاء وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِّنَ اللّهِ وَاللّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ )

ترجمہ: زكاۃ تو صرف فقراء، مساكين، اور اس پر كام كرنے والے، اور تاليف قلب ميں، اور غلام آزاد كرانے ميں، اور قرض داروں كے ليے، اور اللہ كے راستے ميں، اور مسافروں كے ليے ہے، يہ اللہ تعالى كى طرف سے فرض كردہ ہے، اور اللہ تعالى علم والا اور حكمت والا ہے ۔ التوبۃ /60۔

اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا معاذ رضى اللہ تعالى عنہ كو يمن روانہ كرتے وقت يہ فرمانا:

" انہيں اس گواہی کی دعوت دینا کہ : اللہ تعالى كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں، اور ميں ( محمد صلى اللہ عليہ وسلم ) اللہ تعالى كا رسول ہوں، اگر وہ تمہاری اطاعت و فرمانبردارى كر ليں تو پھر انہيں يہ بتانا كہ اللہ تعالى نے ان پر ہر دن اور رات ميں پانچ نمازيں فرض كی ہيں، اگر وہ اس ميں تيرى اطاعت كرليں اور بات مان ليں، تو انہيں يہ بتانا كہ اللہ تعالى نے ان پر ان كے مال پر زكاۃ فرض كى ہے جو ان كے مالداروں سے لیکر ان كے فقراء و مساكين پر خرچ كى جائيگى" متفق علیہ

آپ مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے سوال نمبر (21384) كے جواب كا مطالعہ بھی كريں۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب

متعلقہ جوابات