جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

خلع كى حالت ميں ولادت كے اخراجات كس پر ہونگے؟

تاریخ اشاعت : 25-05-2013

مشاہدات : 5161

سوال

جب خاوند اور بيوى كے درميان خلع ہو جائے اور بيوى حاملہ ہو تو ولادت كے اخراجات كون برداشت كريگا، آيا ي اخراجات خاوند كے ذمہ ہونگے يا نہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اگر بيوى خلع حاصل كر لے يا پھر خاوند اسے طلاق بائن دے دے اور بيوى حاملہ ہو تو خاوند حاملہ بيوى كا نفقہ برداشت كريگا، اس ميں سب علماء كا اجماع ہے، اور ولادت كے اخراجات بھى اسى ميں شامل ہونگے.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جب مرد اپنى بيوى كو طلاق بائن دے يا تو يہ تين طلاقيں ہونگى يا پھر خلع يا پھر فسخ نكاح كے ساتھ بائن ہوئى ہوگى، عورت حاملہ ہو تو اہل علم كے اجماع كے مطابق اسے نفقہ اور رہائش حاصل ہو گى؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

تم انہيں وہيں رہائش جو جہاں تم خود رہائش ركھتے ہو اپنى استطاعت كے مطابق، اور تم انہيں تنگ كرنے كے ليے تكليف مت دو، اور اگر وہ حاملہ ہوں تو تم ان پر وضع حمل تك خرچ كرو .

فاطمہ بنت قيس رضى اللہ تعالى عنہا كى حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" تمہيں نفقہ نہيں ملےگا، ليكن اگر تم حاملہ ہو تو پھر نفقہ كى مستحق ہو "

اور اس ليے بھى كہ وہ حمل اس آدمى كى اولاد ہے، اس ليے اس پر خرچ كرنا لازم ہوگا، اور اس بچے پر خرچ اسى صورت ميں ہو سكتا ہے جب بچے كى ماں پر خرچ كيا جائے، اس ليے جس طرح رضاعت و دودھ پلانے كى اجرت واجب ہے يہ نفقہ بھى واجب ہوا " انتہى

ديكھيں: المغنى ( 8 / 185 ).

جب بيوى حاملہ تھى تو اسے نفقہ ملےگا، الا يہ كہ اس كا خاوند نفقہ سے برات كا اظہار كرے، مثلا وہ خلع ہى اس شرط پر كرے كہ وہ اثنائے حمل اپنا خرچ خود برداشت كريگى، يا پھر حمل كا وضع حمل تك خرچ خود كريگى، يا دودھ چھڑانے تك خرچ بيوى كے ذمہ ہوگا.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جب عورت اپنے خاوند سے خلع حاصل كرے، اور خاوند نے حمل سے برات كر دى تو پھر بيوى كو نفقہ حاصل نہيں ہوگا، اور نہ ہى دودھ چھڑانے تك بچے كا نفقہ ملےگا، ليكن اگر خلع كے وقت خاوند نے خلع تو دے ديا ليكن حمل سے برات نہيں كى تو بيوى كو نفقہ حاصل ہوگا، جس طرح اگر اسے حمل كى حالت ميں تين طلاقيں دے ديں، كيونكہ حمل اس كى اولاد ہے، لہذا خاوند پر اس كا نفقہ ہو گا " انتہى

ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 8 / 188 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب