جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

كسى شخص سے تعلقات ركھنے كے بعد توبہ كرنے والى لڑكى سے منگنى كرنى ہو تو كيا لڑكى سے ماضى كے بارہ ميں پوچھا جا سكتا ہے

تاریخ اشاعت : 29-06-2010

مشاہدات : 8249

سوال

شريك حيات تلاش كرنے كے سلسلہ ميں مجھے ايك لڑكى ملى جس سے ميں مربوط ہونے كى تمنى ركھتا ہوں، اور وہ لڑكى ـ جيسا كہ ميرى بہن نے مجھے اس كے بارہ ميں بتايا ہے ـ نيك و صالح ہے نماز كى پابندى كرتى اور قرآن مجيد كى تلاوت باقى شرعى امور كى پابندى كرتى ہے، ليكن ميرى بہن كے كہنے مطابق اس لڑكى كے ايك لڑكے سے تعلقات تھے، ليكن يہ تعلقات جماع تك نہيں پہنچے.
ميرى بہن اس لڑكى كى گہرى سہيلى ہے، اس نے مجھے بتايا كہ اب اس لڑكى ميں تبديلى پيدا ہوچكى ہے، اور اپنے كيے پر نادم بھى ہوئى روئى بھى ہے، كيا مجھےحق حاصل ہے كہ ميں اس سے اس كے ماضى كے بارہ ميں مزيد تفصيل معلوم كر سكوں؟
اور اگر مجھے يہ اچھا نہ لگى تو مجھے كيا كرنا چاہيے يا كہ اس كے ماضى كو نہيں چھيڑنا چاہيے كہ وہ ايك ايسى لڑكى تھى جس كا ماضى تھا ليكن وہ اب اس سے توبہ كر چكى ہے مجھے علم ہے كہ اس نے دوبارہ ايسا نہيں كيا، برائے مہربانى مجھے معلومات فرمات فراہم كريں، اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے.

جواب کا متن

الحمد للہ.

جو كوئى بھى معاصى ميں مبتلا ہو اور پھر اس سے توبہ كر لے تو اللہ تعالى اس كى توبہ قبول كرتا ہے، اور اس كے گناہوں كو نيكيوں ميں تبديل كر ديتا ہے چاہے اس كے گناہ جتنے بھى ہوں اور كتا بھى عظيم اور بڑا جرم ہو.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور وہ لوگ جو اللہ كے علاوہ كسى دوسرے كو الہ اور معبود نہيں بناتے، اور نہ ہى حرام كردہ جان كو حق كے بغير قتل كرتے ہيں، اور نہ زنا كرتے ہيں، جو كوئى بھى ايسا كريگا وہ گنہگار ہے، اور اسے روز قيامت ڈبل عذاب ديا جائيگا، اور وہ ذليل و رسوا ہو كر اس ميں ہميشہ رہےگا

ليكن جو شخص توبہ كر لے اور ايمان لے آئے اور اعمال صالحہ كرے تو يہى وہ لوگ ہيں جن كے گناہوں كو اللہ تعالى نيكيوں ميں تبديل كر ديتا ہے، اور اللہ تعالى بخشنے والا رحم كرنے والا ہے الفرقان ( 68 - 70 ).

اہم يہ ہے كہ وہ سچى اور خالص توبہ كرے اور اللہ كى طرف رجوع كر لے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا احسان و كرم ہے كہ وہ بندے كى ستر پوشى كرتا اور اس كے معاملہ كو ظاہر نہيں كرتا، اس ليے يہ بات بہت ہى برى ہے كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے جو بات چھپا ركھى ہے وہ اسے ظاہر كرتا پھرے، بلكہ اسے چاہيے كہ وہ اللہ كى ستر پوشى كے ساتھ اپنے آپ كى ستر پوشى ركھے.

شرعى نصوص اور دلائل اس چيز كى تاكيد كرتى ہيں، اور كئى مقامات پر ايسا كرنے كى ترغيب دلائى گئى ہے، ذيل ميں چند ايك نصوص بيان كى جاتى ہيں:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" ان گندى اشياء سے اجتناب كرو جن سے اللہ سبحانہ و تعالى نے منع كيا ہے، اور اگر كوئى ان كا شكار ہو جائے تو اسے اللہ تعالى كى سترپوشى كے ساتھ ستر پوشى اختيار كرنى چاہيے "

اس حديث كو امام بيھقى نے روايت كيا اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے سلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ حديث نمبر ( 663 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور صحيح مسلم ميں ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اللہ سبحانہ و تعالى جس بندے كى دنيا ميں سترپوشى فرماتا ہے تو روز قيامت بھى اس كى ستر پوشى فرمائيگا "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 2590 ).

يہ خوشخبرى توبہ كرنے والے اس شخص كے بارہ ميں ہے جس كى اللہ سبحانہ و تعالى نے دنيا ميں ستر پوشى كى تھى كہ اللہ آخرت ميں بھى اس كى ستر پوشى فرمائيگا، اور ايك حديث ميں اس كى تاكيد كرتے ہوئے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے قسم اٹھائى.

مسند احمد ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے مروى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تين اشياء پر ميں قسم اٹھاتا ہوں، جب كا اسلام ميں كوئى حصہ ہے اللہ اسے اس كى ماند نہيں كريگا جس كا اسلام ميں كوئى حصہ نہيں، اسلام كے تين حصے ہيں، نماز روزہ اور زكاۃ، اور اللہ تعالى جس بندے كا دنيا ميں ولى بن جائے تو روز قيامت اس كا كوئى اور ولى نہيں بنےگا، اور جو شخص كسى قوم سے محبت كرتا ہے اللہ تعالى اسےان كے ساتھ كر ديگا، اور چوتھے پر اگر ميں قسم اٹھاؤں تو ميں گنہگار نہيں ہوتا: جس بندے كى بھى اللہ تعالى دنيا ميں سترپوشى كريگا اس كى روز قيامت بھى سترپوشى كريگا "

مسند احمد حديث نمبر ( 23968 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے السلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ حديث نمبر ( 1387 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور ايك حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" ميرى سارى امت كو معاف كر ديا گيا ہے، ليكن وہ شخص جو اعلانيہ گناہ كرتے ہيں، اور يہ بھى مجاھرہ ميں شامل ہے كہ كوئى شخص رات كے كوئى عمل كرے اور صبح اٹھ كر لوگوں كو بتاتا پھرے حالانكہ اللہ تعالى نےاس كے اس عمل پر پردہ ڈالا تھا، وہ لوگوں كو كہتا پھرے ميں نے رات ايسے ايسے كيا، رات كو اس كے رب نے اس كى پردہ پوشى كى اور وہ صبح اٹھ كر اللہ كى اس پردہ پوشى كو كھولتا پھرتا ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 6069 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2990 ).

اس سے يہ پتہ چلا كہ عورت اپنے منگيتر يا خاوند كو اپنى معصيت و گناہ كے بارہ ميں كچھ نہيں بتائيگى، اور اگر وہ اس سے پوچھے بھى تو وہ اسے مت بتائے، بلكہ وہ اس ميں كنايہ اور توريہ وغيرہ كر لے، يعنى وہ ايسى بات كرے جس سے سامع كوئى اور معنى ليتا ہو، اور كلام كرنے والے كا معنى كچھ اور ہو .

مثلا وہ يہ كہے: ميرا تو كسى شخص كے ساتھ كوئى تعلق نہ تھا، اور اس ميں اس كا مقصد يہ ہو كہ ايك يا دو روز قبل ميرا كسى سے كوئى تعلق نہ تھا.

دوم:

خاوند كو دين اور اخلاق والى بيوى اختيار كرنى چاہيے اس ليے اگر اسے ايسى بيوى مل جائے تو وہ اس كے ماضى كو تلاش نہ كرتا پھرے، اور نہ ہى اس كى معاصى و گناہ كے بارہ ميں دريافت كرے، كيونكہ يہ اس كے مخالف ہے كہ اللہ تعالى تو پردہ پوشى كو پسند كرتا ہے.

اور پھر ايسا كرنے ميں تو شك و شبہ پيدا كرنے كا باعث بنتا ہے، اور تشويش پيدا ہوتى ہے، انسان اس سب كچھ سے غنى ہے، اسے يہى كافى ہے كہ جب اس سے شادى كرنا چاہتا ہے تو اس كى بيوى اللہ كى اطاعت كرنے والى اور راہ مستقيم پر ہو، اور اس كے حكم كو تسليم كرنے والى ہو.

اسى طرح بيوى بھى اپنے خاوند كے ماضى كے بارہ ميں دريافت مت كرے، كہ آيا وہ كسى دوسرى سے محبت كرتا تھا يا اس نے كسى دوسرى عورت سے تعلقات قائم كيے تھے، يا اس نے كوئى گناہ وغيرہ كيا ہے، كيونكہ اس ميں كوئى خير و بھلائى نہيں، بلكہ يہ تو شر و برائى كا دروازہ كھولنے كا باعث بنتا ہے جس كى تلافى ممكن نہيں، اور پھر يہ شريعت كى مراد كے بھى مخالف ہے جيسا كہ اوپر بيان ہوا ہے.

پھر كون شخص ہے جس نے كبھى كوئى برائى اور غلطى نہ كى ہو، اور كون ايسا شخص ہے جس كى صرف نكياں اور اعمال صالحہ ہى ہيں، اور كون اللہ كا بندہ ايسا ہے جس نے كبھى كوئى گناہ نہ كيا ہو جس سے وہ توبہ كى اميد ركھے، اور اسے چھپائے ہم سب ايسے ہى ہيں.

اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ كرام پر جب اللہ نے دين اسلام كا احسان كيا اور انہيں اپنے نبى كے ساتھ ايمان لا كر آگ سے بچايا تو اس سے قبل وہ كہاں اور كيسے تھے؟

كيا وہ ظلم و شرك كى اتھاہ گہرائيوں ميں نہيں پڑے ہوئے تھے ؟

كيا وہ بتوں كى عبادت نہيں كيا كرتے تھے ؟

وہ كيا كچھ نہيں كرتے تھے ؟

اس ليے آپ ماضى كے اوراق كو چھوڑيں وہ ان كے ذمہ ہے اور معاملہ اللہ كے سپرد كر ديں وہ ہر خفيہ اور ظاہر چيز كو جانتا ہے.

حاصل يہ ہوا كہ:

يہ لڑكى جب توبہ كر چكى ہے اور اپنى حالت سنوار چكى ہے اور اس وقت اس كى حالت سے نيك و صلاح واضح ہے تو پھر استخارہ كرنے كے بعد اس سے شادى كرنے ميں كوئى حرج نہيں، اور آپ كو اس كے ماضى كے متعلق نہيں دريافت كرنا چاہيے؛ كيونكہ اس سوال ميں آپ كے ليے كوئى خير و بھلائى نہيں، اور پھر يہ تو پردہ پوشى كے بھى منافى ہے كيونكہ اللہ پردہ پوشى پسند كرتا ہے، اور پھر ہو سكتا ہے سوال كرنے سے وہ جھوٹ بولے يا پھر سچائى اختيار كرے ليكن آپ اس كى تصديق پر مطئمن نہ ہوں اور آپ كو شك و شبہ پيدا ہو.

اور اگر آپ جانتے ہيں كہ آپ كو جو اللہ نے پردہ پوشى كا جو حكم ديا ہے اس پر صبر نہيں كر سكتے ہيں، اور كسى كے عيب تلاش كرنے كو نہيں چھوڑ سكتے تو آپ اس لڑكى كو كسى دوسرے كے ليے رہنے ديں، اللہ تعالى اسے آپ سے بہتر شخص عطا فرمائيگا، اور آپ كو بھى كوئى ايسى بيوى عطا فرمائيگا جو اس سے بہتر ہو.

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كو صحيح راہ كى توفيق نصيب فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب