جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

مقيم شخص نے تين روز تك مسح كيا تو كيا وہ نمازيں لوٹائے گا ؟

سوال

ميں نے وضوء كيا اور مسلسل تين روز تك جرابيں پہنى ركھيں، انہيں ان تين ايام ميں اتارا نہيں، حالانكہ يہ معلوم تھا كہ مقيم شخص كے ليے جرابوں پر ايك رات اور دن مسح كرنا جائز ہے، كيا ميرى باقى دو ايام كى نمازيں صحيح ہيں، يا كہ مخالفت كرنے كى بنا پر مجھے نمازيں دوبارہ ادا كرنا ہونگى ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

صحيح احاديث سے ثابت ہے كہ مقيم شخص كے ليے ايك رات اور دن اور مسافر كے ليے تين راتيں اور تين دن موزوں پر مسح كرنا جائز ہے، اور جرابوں پر مسح كرنا موزوں پر مسح كرنے كى طرح ہى ہے.

امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے شريح بن ھانئ سے روايت كيا ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كے پاس آيا اور ان سے موزوں پر مسح كرنے كے متعلق دريافت كيا تو وہ فرمانے لگيں:

" تم ابن ابى طالب كے پاس جا كر اس كے متعلق دريافت كرو، كيونكہ وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ سفر كيا كرتے تھے، چنانچہ ہم نے ان سے دريافت كيا تو انہوں نے فرمايا:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مسافر كے ليے تين راتيں اور تين دن اور مقيم شخص كے ليے ايك رات اور دن مدت مقرر كى "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 276 ).

اور امام ترمذى، ابو داود، اور ابن ماجہ نے خزيمہ بن ثابت انصارى رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے موزوں پر مسح كے متعلق دريافت كيا گيا تو آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" مسافر كے ليے تين اور مقيم كے ليے ايك روز "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 95 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 157 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 553 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

امام ترمذى، نسائى اور ابن ماجہ نے صفوان بن عسال رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ہميں حكم ديا كرتے كہ جب ہم سفر ميں ہوں تو اپنے موزے تين رات اور تين نہ اتارا كريں، پيشاب پاخانہ اور نيند كى بنا پر نہيں بلكہ جنابت كى وجہ سے اتار ديں "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 96 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 127 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 478 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے اس حديث كو حسن قرار ديا ہے.

دوم:

مسح كرنے كى مدت كى ابتدا ميں فقھاء كرام كا صحيح قول يہى ہے كہ وضوء ٹوٹنے كے بعد پہلا مسح كرنے سے مدت كى ابتدا ہوتى ہے، نہ كہ موزے پہننے كے وقت سے، اور نہ ہى موزے پہننے كے بعد وضوء ٹوٹنے كے وقت سے چنانچہ اگر كسى نے نماز فجر كے ليے وضوء كيا اور موزے پہن ليے، پھر صبح نو بجے وضوء ٹوٹ گيا اور اس نے وضوء نہ كيا، پھر بارہ بجے وضوء كيا تو مسح كى مدت بارہ بجے سے شروع ہو كر ايك دن اور رات يعنى چوبيس گھنٹے رہے گى.

امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

اوزاعى اور ابو ثور كا كہنا ہے كہ: مسح كرنے كى مدت كى ابتدا وضوء ٹوٹنے كے بعد مسح كرنے كے وقت سے شروع ہو گى، امام احمد سے بھى يہى روايت ہے، اور دليل كے اعتبار سے راجح اور مختار بھى يہى ہے، اسے ابن منذر نے اختيار كيا ہے، اور عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ سے اسى طرح بيان كيا جاتا ہے " انتہى.

ديكھيں: المجموع للنووى ( 1 / 512 ).

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى نے بھى اسے ہى راجح قرار ديا ہے وہ كہتے ہيں:

" كيونكہ احاديث ميں ہے: " مسافر مسح كرے " اور " مقيم مسح كرے " اور يہ ممكن ہى نہيں كہ مسح كيے بغير اس پر مسح كرنا صادق آتا ہو، يہ اسى وقت ہو سكتا ہے جب وہ مسح كر لے، اور صحيح بھى يہى ہے "

ديكھيں: الشرح الممتع ( 1 / 186 ).

سوم:

اہل علم ميں سے بہت سے علماء جن ميں شيخ الاسلام ابن تيميہ اور ابن حزم شامل ہيں نے اختيار كيا ہے كہ:

مسح كى مدت ختم ہونے سے وضوء نہيں ٹوٹتا كيونكہ اس كى كوئى دليل نہيں، بلكہ وضوء تو ان اشياء سے ٹوٹتا ہے جو وضوء توڑنے ميں معروف ہيں، مثلا پيشاب اور پاخانہ وغيرہ.

ديكھيں: المحلى ابن حزم ( 2 / 151 ) الاختيارات الفقھيۃ ( 15 ) الشرح الممتع ( 1 / 216 ).

اس بنا پر جو شخص باوضوء ہو اور نماز ظہر سے قبل مسح كرنے كى مدت ختم ہو جائے تو وہ ظہر اور اس كے بعد والى نماز وضوء ٹوٹنے تك پہلے وضوء سے ہى ادا كر سكتا ہے.

مندرجہ بالا سطور ميں جو كچھ بيان ہوا ہے اس كى بنا پر درج ذيل نتيجہ حاصل ہوا:

اگر آپ بے وضوء ہوں اور مسح كرنے كى مدت ختم ہو جائے تو آپ كے ليے وہ سب نمازيں دوبارہ ادا كرنا ضرورى ہيں جو آپ نے مسح كرنے كى مدت ختم ہونے كے بعد ادا كيں اور اپنے پاؤں نہيں دھوئے.

اور اگر مسح كرنے كى مدت ختم ہوئى اور آپ باوضوء تھے، تو آپ كے ليے وہ نمازيں لوٹانا ضرورى ہيں جب سے مدت ختم ہونے كے بعد وضوء ٹوٹا تھا.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب