جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

سياسى كتابيں اور ناول فروخت كرنا

تاریخ اشاعت : 02-05-2007

مشاہدات : 18070

سوال

ميرے پاس كئى قسم كى كتابيں ہيں جو سياست، اقتصاديات، تاريخ، اور كئى قسم كے عربى اور عالمى ناول ہيں، كيا ان كتب كو فرخت كرنا اور ان كى قيمت سے دينى كتب كى خريدارى، يا خير و بھلائى كے كاموں اور صدقہ ميں استفادہ كرنا جائز ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

خريد وفروخت ميں اصل تو حلت اور جواز ہے؛ كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور اللہ تعالى نے خريد و فروخت حلال كي اور سود كو حرام كيا ہے البقرۃ ( 275 ).

جصاص رحمہ اللہ كہتے ہيں: يہ سارى خريد و فروخت كے مباح ہونے ميں عام ہے.

ديكھيں: احكام القرآن ( 2 / 189 ).

يہ تو اصل كے اعتبار سے ہے، ليكن اگر فروخت كردہ چيز ـ يعنى سامان ـ حرام چيز ہو يا پھر وہ غالبا حرام ميں استعمال ہوتى ہو: تو اس كى خريد و فروخت كا لين دين كرنا جائز نہيں.

اس ليے سوال ميں بيان كردہ كتابيں دو حالتوں سے خالى نہيں:

يا تو يہ كتب قارئ كے ليے مفيد اور نفع مند ہوں چاہے علوم دين كے علاوہ كسى اور علوم ميں ہوں، مثلا تاريخ، سياست، فيزياء، رياضى وغيرہ اور آپ كے علم كے مطابق وہ حرام كردہ اشياء مثلا جھوٹ، فحاشى كو عام كرنے، لوگوں كو دھوكہ دينے وغيرہ پر مشتمل نہ ہوں تو يہ كتابيں اس مذكورہ اصل پر ہى ہيں، يعنى ان كى خريد و فروخت مباح اور جائز ہے، اور جب اس كى خريد و فروخت جائز ہے تو پھر اس سے حاصل ہونے والى رقم اور مال اپنى دينى اور دنياوى مصلحت كے حصول كے ليے خرچ كر سكتے ہيں، يہ آپ كے ليے حلال ہے.

اور اگر يہ كتابيں فى نفسہ حرام ہوں، يا پھر قارى كے ليے نقصان دہ ہوں، وہ اسطرح كہ وہ جھوٹے قصوں اور كہانيوں پر مشتمل ہوں، اور اس ميں واقعات اور دينى اور شرعى واقعات و امور كو موڑ توڑ كر پيش كيا گيا ہو، اور دين اور اخلاق اور عقيدہ كو فاسد كرنے والى اشياء ہوں، اور عورت كے ہاں شرم و حياء، اور مرد كى مردانگى كے معانى كو تبديل كركے ركھ ديا گيا ہو ـ جيسا كہ اس وقت بہت سى عربى اور غير عربى كہانيوں اور ناولوں ميں پايا جاتا ہے، تو اس قسم كى كتابيں فروخت كرنا حرام ہيں.

بلكہ انہيں تلف اور ضائع كرنا واجب ہے، اور اس كى قيمت سے حاصل ہونے والے مال سے استفادہ كرنا حلال نہيں، اس ليے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" بلا شبہ جب اللہ تعالى كسى قوم پر كوئى چيز حرام كر ديں تو اس كى قيمت بھى حرام كر ديتا ہے "

مسند احمد حديث نمبر ( 2956 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے " غايۃ المرام " ( 318 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب