اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

قسطوں ميں فروخت كرنے كےليے قيمت بڑھانا جائز ہے

تاریخ اشاعت : 29-01-2008

مشاہدات : 14760

سوال

كيا سامان كي قيمت بڑھا كرقسطوں ميں فروخت كرنا جائز ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

بيع التقسيط ميں فروخت كردہ چيز فوري طور پر دي جاتي ہےاور اس كي مكمل يا كچھ قيمت معلوم مدت اور قسطوں ميں ادا كي جاتي ہے.

اس كا حكم جاننےكي اہميت:

بيع التقسيط ان مسائل ميں سے ہے اس دور ميں جن كا حكم معلوم كرنے كا اہتمام كرنا ضروري ہے اس ليے كہ اس وقت دوسري جنگ عظيم كےبعد يہ مسئلہ بہت سي امتوں اور افراد ميں پھيل چكا ہے.

كمپنياں اور ادارے سامان بنانےاور باہر سےلانےوالوں سے قسطوں ميں خريداري كرتےاور اپنےگاہكوں كوبھي قسطوں ميں فروخت كرتےہيں، مثلا گاڑياں، جائداد، اور مختلف قسم كےآلات وغيرہ.

اور بنك وغيرہ بھي اسے پھيلانے كا باعث بنےہيں، اس طرح كہ بنك سامان نقد خريد كراپنے ايجنٹوں كو ادھارقيمت ( قسطوں پر ) فروخت كرتے ہيں.

قسطوں ميں فروخت كرنے حكم :

بيع النسيئۃ كےجواز ميں نص وارد ہے، اوريہ قيمت كومؤخر كرنے والي بيع كانام ہے.

بخاري اور مسلم نے عائشہ رضي اللہ تعالي عنھا سے بيان كيا ہے كہ نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے ايك يھودي سے ادھار غلہ خريدا اور اس كےپاس اپني لوہے كي درعہ رہن ركھي. صحيح بخاري حديث نمبر ( 2068 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1603 ) .

يہ حديث قيمت ادھار كرنے كي بيع پر دلالت كرتي ہے، اور قسطوں كي بيع بھي قيمت ادھار كرنے كي بيع ہے، اس ميں غايت يہ ہے كہ اس ميں قيمت كي قسطيں اورہرقسط كي مدت مقرر ہوتي ہے.

اور حكم شرعي ميں اس كا كوئي فرق نہيں كہ ادھار كردہ قيمت كي مدت ايك ہو يا كئي ايك مدتيں مقرر كي ہوں .

عائشہ رضي اللہ تعالي عنھا بيان كرتي ہيں كہ ميرے پاس بريرہ رضي اللہ تعالي عنھا آئيں اور كہنےلگي: ميں نےاپنےمالكوں سے نو اوقيہ ميں كتابت كي ہے اور ہر برس ايك اوقيہ دينا ہے... صحيح بخاري حديث نمبر ( 2168 ) .

اور يہ حديث ادھارقسطوں ميں قيمت كي ادئيگي كے جواز كي دليل ہے.

اگرچہ قيمت ادھار كرنےميں جواز كي نصوص وارد ہيں ليكن اس كي كوئي دليل اور نص نہيں ملتي كہ ادھار كي وجہ سے قيمت بھي زيادہ كرني جائز ہے.

اسي ليے علماء اكرام اس مسئلہ كےحكم ميں اختلاف كرتےہيں:

بہت كم علماء اس كي حرمت كےقائل ہيں اس ليے كہ يہ سود ہے.

ان كا كہنا ہےكہ: اس ليے كہ اس ميں قيمت زيادہ ہے اوريہ زيادہ قيمت مدت كے عوض ميں ہے اور يہي سود ہے.

اورجمہور علماء كرام جن ميں آئمہ اربعہ شامل ہيں اس كےجواز كے قائل ہيں .

ذيل ميں اس كےجواز كي عبارات پيش كي جاتي ہيں:

حنفي مذھب ميں ہےكہ :

( بعض اوقات مدت كےعوض قيمت بڑھ جاتي ہے ) ديكھيں بدائع الصنائع ( 5 / 187 ) .

مالكي مذھب :

( وقت كےليے قيمت ميں سے كچھ مقدار ركھي گئي ہے ) بدايۃ المجتھد ( 2 / 108 ) .

شافعي مذھب :

( نقد پانچ ادھار ميں چھ كےبرابر ہے ) الوجيز للغزالي ( 1 / 85 )

حنبلي مذھب :

( مدت قيمت ميں سے كچھ حصہ ليتي ہے ) فتاوي ابن تيميۃ ( 29 / 499 ).

اس پر انہوں نے كتاب وسنت سے دلائل بھي ليے ہيں ان ميں بعض ذيل ميں پيش كيے جاتےہيں:

1 - فرمان باري تعالي ہے:

اللہ تعالي نے بيع حلال كي ہے البقرۃ ( 275 ).

آيت عموم كےاعتبار سے بيع كي سب صورتوں كو شامل ہے اوراس ميں مدت كےعوض ميں قيمت زيادہ كرنا داخل ہے.

2 - اور ايك مقام پر اللہ تعالي نےاس طرح فرمايا:

اے ايمان والو تم آپس ميں ايك دوسرے كا مال باطل طريقہ سے نہ كھاؤ مگر يہ كہ تمہاري آپس كي رضامندي سے خريدوفروخت ہو النساء ( 29 ).

يہ آيت بھي عموم كےاعتبار سے طرفين كي رضامندي كي صورت ميں بيع كے جواز پر دلالت كرتي ہے، لھذا جب خريدار اور تاجر مدت كےعوض قيمت بڑھانےميں اتفاق كرليں تو بيع صحيح ہوگي.

3 - امام بخاري رحمہ اللہ تعالي نے ابن عباس رضي اللہ تعالي عنھما سے روايت كيا ہے وہ بيان كرتےہيں كہ نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم مدينہ تشريف لائے تو وہ كھجوروں ميں دو اور تين برس كي بيع سلف كرتے تھے، تو رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نےفرمايا:

( جس نے بھي كسي چيز كي بيع سلف كي وہ معلوم ماپ اور تول اور مدت معلومہ ميں بيع كرے ) صحيح بخاري حديث نمبر ( 2086 ) .

بيع سلف نصا اوراجماعا جائز ہے، اور يہ بيع التقسيط كےمشابہ ہے، علماء كرام نے بيان كيا ہے كہ اس كي حكمت يہ ہے كہ خريدار اس ميں سستي قيمت كا فائدہ حاصل كرتا ہےاور فروخت كرنےوالا مال پہلےحاصل كركےنفع حاصل كرتا ہے، اور يہ دليل ہے كہ خريدوفروخت ميں مدت كا قيمت ميں حصہ ہے، اور خريدوفروخت ميں اس كا كوئي حرج نہيں. ديكھيں: المغني ( 6 / 385 ) .

4 - ادھار كے عوض ميں قيمت زيادہ كرنا مسلمانوں كا عمل بن چكا ہے اور اس پر كوئي اعتراض نہيں، لھذا اس صورت كي بيع پر يہ اجماع كي مانند ہے.

شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالي سے مدت كےعوض ميں قيمت زيادہ كرنے كے حكم كےمتعلق سوال كياگيا تو ان كا جواب تھا:

اس معاملہ ميں كوئي حرج نہيں، اس ليےكہ نقدكي بيع ادھار كےعلاوہ ہے، اور آج تك مسلمان اس طرح كےمعاملات كر رہے ہيں، اس كےجواز پر ان كي جانب سے يہ اجماع كي مانند ہي ہے، اور بعض شاذ اہل علم نےمدت كےعوض قيمت زيادہ كرنا منع قرار ديا ہےاور ان كا گمان ہے كہ يہ سود ہے، اس قول كي كوئي وجہ نہيں بنتي، اور نہ ہي سود ہے، اس ليے كہ تاجرنےجب ادھار سامان فروخت كيا تووہ مدت كي وجہ قيمت زيادہ كركےنفع حاصل كرنےپرمتفق ہوا اورخريدار بھي مہلت اورمدت كي بنا پر قيمت زيادہ دينےپر متفق ہوا كيونكہ وہ نقد قيمت ادا كرنے كي استطاعت نہيں ركھتا، تواس طرح دونوں فريق اس معاملہ سے نفع حاصل كرتےہيں.

نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم سے بھي اس كا ثبوت ملتا ہے جواس كےجواز پر دلالت كرتا ہےوہ يہ كہ نبي كريم سے عبداللہ بن عمرو بن عاص رضي اللہ تعالي عنھما كو لشكر تيار كرنےكاحكم ديا، تو وہ ادھار ميں ايك اونٹ كےبدلے دواونٹ خريدتےتھے، پھر يہ معاملہ اللہ سبحانہ وتعالي كےمندرجہ ذيل فرمان ميں بھي داخل ہوتا ہے:

اے ايمان والو! جب تم آپس ميں ميعاد مقرر تك كےليے قرض كا لين دين كروتواسےلكھ ليا كرو البقرۃ ( 282 ).

اوريہ معاملہ بھي جائز قرضوں ميں سے اور مذكورہ آيت ميں داخل ہےاور يہ بيع سلم كي جنس ميں سے ہي ہے.. اھ

ديكھيں: فتاوي اسلاميۃ ( 2 / 331 ) .

مزيد تفصيل كےليے ديكھيں: كتاب " بيع التقسيط" تاليف ڈاكٹر رفيق يونس المصري .

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب