منگل 7 شوال 1445 - 16 اپریل 2024
اردو

اگر تصوير حرام ہے تو پھر ٹيلى ويژن اور ويڈيو ديكھنا كيسے جائز ہوا ؟

88180

تاریخ اشاعت : 13-04-2008

مشاہدات : 8519

سوال

مجھے ايك بھائى نے كہا كہ فوٹو گرافى حرام ہے، چنانچہ ميں نے اس مسئلہ كے متعلق علماء كرام كے فتاوى جات كا مطالعہ كيا تو اس كى حرمت ميں اختلاف پايا، ليكن جس پر ميں مطمئن ہوں اور جس كو تسليم كرتا ہوں وہ مستقل فتوى كميٹى اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ كا فتوى مانتا ہوں.
اب ميرے نزديك يہ بات طے شدہ ہے كہ ہر قسم كى تصوير حرام ہے، ليكن ضرورت و حاجت والى تصوير جائز ہو گى، اور كسى بھى قسم كى تصوير سنبھال كر ركھنا حرام ہے، مگر ضرورت والى نہيں، اور جو شخص اپنى تصوير بنانا قبول كرتا ہے وہ مصور كے حكم ميں ہى آتا ہے، كيونكہ وہ تصوير بنوانے پر راضى ہے.
ليكن شيخ ابن باز رحمہ اللہ كے فتوى كے مطابق ٹيلى ويژن اور ويڈيو ديكھنا جائز ہے، تو ميرا سوال اور مجھے اشكال يہ ہے كہ:
تصوير كو حرام كہنے والے ( مثلا شيخ ابن باز اور مستقل فتوى كميٹى ) ہاں كيا تصوير ديكھنا جائز ہے ( يعنى وہ تصاوير جو برائى سے خالى ہوں ) اور بغير كسى ضرورت كے ديكھى جائيں، يعنى صرف تفريح كى خاطر، چاہے اس تصوير كو بنانے كا وسيلہ كوئى بھى ہو؟
اور اگر جائز ہے تو ميں اس كے درميان اور برائى سے منع كے درميان جمع كيسے كر سكتا ہوں، كيونكہ تصوير ايك برائى ہے، اور اسے روكنے كا كم از كم درجہ دل سے برا جاننا ہے.
تو اس طرح ميں اس كى طرف ديكھوں بھى نہ اور جہاں تصوير ہے وہاں سے دور رہوں، اور اگر مجھے كوئى شخص ويڈيو كلپ ديكھائے تو ميں اسے ديكھنا بھى قبول نہ كروں، جناب والا آپ سے گزارش ہے كہ اس اشكال كا حل پيش كريں، اور مجھے بتائيں كہ آيا ميں صحيح طرف جا رہا ہوں يا غلط سمت ميں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

آپ نے جو بيان كيا ہے كہ فوٹو گرافى ہے، اور بغير كسى ضرورت اور حاجت تصوير ركھنى حرام ہے، اور اگر برائى اور بے حيائى سے خالى ہو تو ٹى وى اور ويڈيو ديكھنا جائز ہے، يہ اہل علم كى ايك جماعت جن ميں شيخ ابن باز رحمہ اللہ اور مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام شامل ہيں.

دوم:

اور آپ نے جس اشكال كا ذكر كيا ہے اس كے متعلق شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ نے جواب ديا اور يہ بيان كيا ہے كہ تصاوير ويڈيو وغيرہ كى ريل پر بنى ہوئى ہوتى ہيں جن كا نہ تو كوئى مظہر ہے اور نہ ہى منظر ہے، يعنى وہ ظاہر نہيں ہوتيں اور نہ ہى ديكھى جاتى ہيں بلكہ وہ مقناطيسى لہريں اور شعائيں ہيں اس ليے جو كيمرہ كے ساتھ تصاوير بنانے كو جائز نہيں سمجھتے انہوں نے ويڈيو كو جائز قرار ديا ہے.

شيخ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" موجودہ نئے طريقہ سے تصوير كى دو قسميں ہيں:

پہلى قسم:

نہ تو اس تصوير كا كوئى مشہد ہو اور نہ ہى مظہر، جيسا كہ مجھے ويڈيو كى ريل ميں موجود تصاوير كے متعلق بتايا گيا ہے، تو اس كو مطلقا كوئى حكم حاصل نہيں، اور نہ ہى مطلقا يہ حرمت ميں داخل ہوتا ہے، اس ليے جو علماء كاغذ پر فوٹو گرافى سے منع كرتے ہيں ان كا كہنا ہے: اس ميں كوئى حرج نہيں، حتى كہ يہ سوال كيا گيا:

آيا مساجد ميں ديے جانے والے دروس اور ليكچر كى تصوير بنانى جائز ہے ؟

تو اس كے جواب ميں رائے يہى تھى كہ ايسا نہ كيا جائے، كيونكہ ہو سكتا ہے يہ چيز نمازيوں كے ليے تشويش كا باعث ہو، اور ہو سكتا ہے منظر بھى لائق نہ ہو.

دوسرى قسم:

كاغذ پر موجود تصوير.......

ليكن يہ ديكھنا باقى ہے كہ: جب انسان مباح تصوير بنانا چاہے، تو اس ميں مقصد كے اعتبار سے پانچ احكام جارى ہونگے، لہذا اگر اس نے كسى حرام چيز كا قصد كيا تو يہ حرام ہوگى، اور اگر اس سے واجب مقصود ہو تو يہ واجب ہے، كيونكہ بعض اوقات تصوير واجب ہو جاتى ہے، اور خاص كر متحرك تصوير، مثلا جب ہم ديكھيں كہ كوئى شخص جرم كر رہا اور اس جرم كا تعلق حقوق العباد سے ہے يعنى وہ كسى كو قتل كر رہا ہے اور ہم اس كو تصوير كے بغير ثابت ہى نہيں كر سكتے، تو اس وقت تصوير بنانى واجب ہوگى.

اور خاص كر ان مسائل ميں جو معاملات كو مكمل كنٹرول كرتے ہيں، كيونكہ وسائل كو احكام مقاصد حاصل ہيں، اگر ہم اس خوف اور خدشہ كى بنا پر يہ تصوير بنائيں كہ كہيں مجرم كے علاوہ كسى اور كو اس جرم ميں نہ پھنسا ديا جائے تو اس ميں بھى كوئى حرج نہيں بلكہ تصوير بنانا مطلوب ہو گا، اور اگر تفريح كى بنا پر تصوير بنائى جائے تو بلاشك و شبہ يہ حرام ہے. انتہى.

ديكھيں: الشرح الممتع ( 2 / 197 - 199 ).

مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 10326 ) اور ( 13633 ) اور ( 20325 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب