"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
میں نے بعض لوگوں کودیکھا ہے کہ وہ مدینہ کی زيارت کے لیے آتے ہیں تووہ سبع مساجد اورمسجدنبوی ، اورمسجد قباء آتے ہیں اورطائف میں مسجدعداس آنے کی حرص رکھتے ہيں اوراسی طرح مکہ کی دوسری مساجد میں بھی نماز ادا کرنے جاتے ہيں ، تواس کا حکم کیا ہے ؟
الحمد للہ.
مسجد نبوی شریف کی جانب سفرکا قصد کرنا ایک مشروع اورجائز عمل ہے جس پرنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مندرجہ ذيل فرمان دلالت کرتا ہے :
( تین مساجد یہ مسجد ، مسجد حرام ، اورمسجد اقصی کےعلاوہ کسی اورکی جانب سفرکا قصد نہ کیا جائے ) صحیح بخاری اورمسلم یہ مسلم کے الفاظ ہیں ۔
اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی فرمان ہے :
( اس میں نماز کی ادائيگي مسجد حرام کے علاوہ دوسری (مساجد ) میں ایک ہزارنماز سے افضل ہے ) ۔
اس کے ساتھ ان جگہوں کا اضافہ بھی کیا جاسکتا ہے جن کی زيارت کرنا مشروع ہے لیکن ان کی زيارت کے مقصد سے سفر کرنا جائزنہيں ، ان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ابوبکر اورعمرفاروق کی قبروں کی زيارت کرنا ، قبرستان بقیع اورشھداء احد اورمسجد قبا جانا ۔
ان قبروں کی زيارت کرنے کی مشروعیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کے عموم میں شامل ہوتی ہے :
( یقینا میں نے تمہیں قبروں کی زيارت کرنے سے منع کیا تھا لھذا اب زیارت کیا کرو ) صحیح مسلم ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
شھدائے احد اوربقیع کی بھی زيارت کرنا ان کے لیے دعائے استغفار اوربخشش کرنا بھی مستحب ہے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہاں جایا کرتے تھے اوراس کے ساتھ سب مسلمانوں کی قبروں کے لیے جائز ہے ۔ دیکھیں : مجموع الفتاوی ( 17 / 470 ) ۔
اورمسجدقباء کی زيارت کرنے کی دلیل صحیحن کی مندرجہ ذيل حدیث ہے :
ابن عمررضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہيں کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پیدل یا سوار ہوکرجایاکرتے تھے ۔
اورایک روایت میں ہے کہ : اس میں دورکعت نماز ادا کیاکرتے تھے ۔ صحیح بخاری ومسلم ۔
اوراس لیے بھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( جس نے اپنے گھر میں وضوء کیا اورمسجد قباء جاکرنمازادا کی اسے عمرہ کے برابر ثواب حاصل ہوتا ہے ) مسنداحمد ، نسائي ، ابن ماجہ ، مستدرکم حاکم نے اسے روایت کیا ہے اورامام حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے اورامام ذھبی رحمہ اللہ تعالی نے اس کی موافقت کی ہے ، اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح الجامع ( 6154 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔
اورباقی مساجد اورتاریخی مقام کی زيارت کرنا اوریہ دعوی کرنا کہ ان جگہوں کی زيارت کرنا ضروری ہے ، اس کی کوئي دلیل اوراصل نہیں ملتی ، اورمندرجہ ذيل وجوھات کی بنا پران کی زيارت کرنے سے اجتناب کرنا ضروری ہے :
پہلی وجہ :
ان مساجد کی زیارت کی تخصیص میں کسی دلیل کا نہ ہونا ، جس طرح کہ مسجد قباء کی زيارت کے بارہ میں دلیل ملتی ہے اس طرح ان مساجد کے بارہ میں نہيں ، اورپھرجیسا کہ معلوم ہے کہ عبادات کی بنیاد اوراساس اتباع وپیروی ہے نہ کہ بدعات کی ایجاد پر ۔
دوسری وجہ : '
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سب لوگوں سے زيادہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی واتباع کرنے کی حرص رکھتے تھے لیکن اس کے باوجود ان سے یہ معروف اورمعلوم نہيں کہ انہوں نے ان مساجد اورجگہوں کی زيارت کی ہو ، اوراگریہ کوئي بھلائي اورخیرہوتی تووہ ہم سے سبقت لےجاتے ۔
شیخ الاسلام رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں :
( ابوبکر ، عمر ، عثمان ، علی رضي اللہ تعالی عنہم اورباقی سارے مھاجراورانصارصحابہ کرام رضي اللہ تعالی عنہم مدینہ نبویہ سے حج اورعمرہ کرنے کے لیے مکہ مکرمہ جایا کرتے تھے اورسفرکیا کرتےتھے لیکن ان میں سے کسی ایک نے بھی یہ نہیں کہا کہ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازوالی جگہ کوتلاش کرکے نماز ادا کی ہو ، اوریہ معلوم ہے کہ اگرایسا کرنا ان کے ہاں مستحب ہوتا تووہ ہم سے زيادہ سبقت لے جاتے کیونکہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اورطریقہ کوزيادہ جانتے تھے اوردوسروں سے زيادہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع وپیروی کرنے والے تھے ) دیکھیں : اقتضاء الصراط المستقیم ( 2 / 748 ) ۔
تیسری وجہ :
اس کی زيارت سے منع کرنا سدذریعہ ہے ، اوریہ منع کرنا بھی سلف صالحین کے عمل سے ثابت ہے ان میں سب کے سرخیل خلیفہ راشدعمربن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ شامل ہيں :
معرور بن سوید رحمہ اللہ تعالی بیان کرتے ہیں کہ : ہم عمربن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ کے ساتھ نکلے توہمارے راستے میں ایک مسجدآئي تولوگوں نے اس کی جانب جلدی بڑھ کرنماز پڑھنا شروع کردی توعمررضي اللہ تعالی عنہ فرمانے لگے :
انہيں کیا ہوا ؟ تولوگوں نے جواب دیا اس مسجد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا کی تھی توعمررضی اللہ تعالی عنہ فرمانے لگے :
اے لوگویقینا تم سے پہلے لوگ بھی اس طرح کی اتباع کرتے ہوئے ہلاک ہوئے حتی کہ انہوں نے اسے عبادت گاہ بنالیا، لھذا جسے اس میں نماز پیش آجائے ( یعنی فرضي نماز کا وقت ہوجائے )وہ ادا کرے اورجس کے لیے نماز نہ آئے وہ چلتا رہے ۔
اسے ابن وضاح نے اپنی کتاب البدع والنھی عنھا میں روایت کیا ہے اورابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی نے المجموع ( 1 / 281 ) میں صحیح کہا ہے ۔
شیخ الاسلام رحمہ اللہ تعالی اس قصہ پرتعلیق چڑھاتے ہوئےکہتے ہیں :
( کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں نماز ادا کرنے کی تخصیص نہيں فرمائي تھی بلکہ یہاں پرآپ نےاس لیے نماز ادا کی کہ یہاں پڑاؤ کیا تھا ، توعمررضي اللہ تعالی عنہ نے اس فعل کی صورت میں قصدا اورغیرموافق وقت میں شرکت کرنا اتباع نہيں بلکہ اس جگہ کونماز کے لیے مخصوص کرنا اہل کتاب کی ان بدعات میں سے ہے جس کی بنا پروہ ہلاک ہوئے تھے ، اورمسلمانوں کوان کی مشابھت اختیارکرنے سے منع کردیا گيا ہے ، توایسا کرنے والا صورت میں تونبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اورقصدجوکہ دل کا عمل ہے میں یھودیوں اورعیسائيوں کے مشابہ ہے ، اوریہی اصل ہے کیونکہ نیت میں متابعت عمل کی صورت میں متابعت سے زيادہ نزدیک ہے ) مجموع الفتاوی ( 1 / 281 ) ۔
اورایک اورقصہ میں ہے کہ عمربن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ کوعلم ہوا کہ کچھ لوگ اس درخت کے پاس جاتے ہیں جس کے نیچے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی گئي تھی توعمررضي اللہ تعالی عنہ نے اسے کاٹنے کا حکم دے دیا ۔
اسے ابن وضاح نے اپنی کتاب : البدع والنھی عنھا میں اورابن ابی شیبہ نے مصنف ابن ابی شیبہ ( 2 / 375 ) میں ذکرکیا ہے اورابن حجررحمہ اللہ تعالی نے فتح الباری ( 7 / 448 ) میں اس کی سند صحیح قراردی ہے ، اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں : اس کے رجال ثقات ہیں ۔
ابن وضاح القرطبی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں :
( مدینہ کے علماء مالک بن انس رحمہ اللہ وغیرہ قباء اوراحد کے علاوہ باقی مساجداورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار کی طرف جانا ناپسند کرتے تھے ) البدع والنھی عنھا صفحہ نمبر ( 43 ) احدسے شھدائے احد کی قبریں مراد ہيں ۔
شیخ الاسلام رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں :
( اسی لیے اہل مدینہ اوردوسرے علماء سلف نے مسجد نبوی کے بعد مسجد قباء کے علاوہ مدینہ اوراس کے اردگرد میں پائے جانے والے مزارات جانا مستحب نہیں کہا کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے سوا کسی اورمعین مسجد کا قصد نہيں فرمایا ) مجموع الفتاوی ( 17 / 469 ) ۔
اورفضیلۃ الشيخ عبدالعزيزبن بازرحمہ اللہ تعالی مدینہ میں مشروع جگہ کی زيارت کا ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں :
( اورسبع مساجد اورمسجد قبلتین اوربعض وہ جگہیں جن کا ذکرحج کی کتابوں میں ملتا ہے کہ ان کی زيارت کی جائے اس کی کوئي دلیل اوراصل نہیں ، اورمومن کے لیے ہروقت مشروع یہی ہے کہ وہ اتباع وپیروی کرے نہ کہ بدعات کی ایجاد ) فتاوی اسلامیۃ ( 2 / 313 ) ۔
اورفضیلۃ الشیخ علامہ محمد بن عثیمین رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں :
( مدینہ شریف میں ان اشیاء کے علاوہ کوئي اورایسی چيزنہيں جس کی زيارت کی جائے : مسجدنبوی کی زيارت کرنا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرکی زيارت کرنا ، قبرستان بقیع کی زيارت کرنا ، شھدائے احد کے مقبرہ کی زيارت ، مسجد قباء کی زيارت ، اوراس کے علاوہ جتنی بھی جگہیں ہیں ان کی زيارت کرنے کی کوئي اصل اوردلیل نہيں ملتی ) فقہ العبادات ( 405 ) ۔
اوربعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ان جگہوں کی عدم فضیلت کی شرط ہی وہاں یااس کےعلاوہ دوسرے آثار میں جانے کے جواز کےلیے کافی ہے ، تویہ بھی کئی ایک اسباب کی بنا پرمردود ہے :
اول :
سلف صالحین رحمہم اللہ نے اس کی طرف جانے سے کسی تفصیل کے بغیر ہی مطلقا منع کیا ہے ۔
دوم :
ان اماکن کی طرف جانااوراس لیے اس کی زیارت کی تخصیص کرنی کہ یہ مدینہ کی سرزمین پرواقع ہیں جہاں سے دعوت شروع ہوئی اورکئي ایک معرکے بھی یہاں ہوئے یہ ہی اس کی فضلیت کے اعتقاد کی دلیل ہے ، اوراگراس کے دل میں یہ اعتقاد نہ ہوتا توپھردل بھی اس کی زيارت کرنے کی تخصیص نہ کرتا ۔
سوم :
اگرہم بالفرض ایک منٹ کے لیے یہ بھی تسلیم کرلیں کہ ان جگہوں کی زيارت کےوقت ان کی فضیلت کا اعتقاد نہيں ہوتا ، توپھریہ ہےکہ ان کی زيارت اس کا ذریعہ بنتی ہے اورایسی چيز کے پیدا ہوتی ہے جومشروع ہی نہيں ، اورسدالذرائع بھی شریعت میں شامل ہے جیسا کہ یہ کسی پربھی مخفی نہيں ۔
بلکہ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی نے توننانوے وجوھات ذکرکی ہيں جواس قاعدہ پردلالت کرتی ہيں ، اورپھر آخری اور99 وجہ ذکر کرنے کےبعد کہتے ہیں :
اورسدالذرائع کا باب تکلیف ( یعنی جن کا مکلف ٹھرایا گيا ہے ) کا ایک چوتھائي حصہ ہے کیونکہ تکلیف امراورنہی ہے اورامرکی دوقسمیں ہیں ایک تومقصود لنفسہ ہے اوردوسری : مقصود کی جانب پہنچانے والاوسیلہ ہے ، اورنہی کی بھی دوقسمیں ہیں : ایک تواس چيز سے منع کرنا ہے جوفی نفسہ ہی فساد کا باعث ہے اورفساد ہے ، اوردوسری : جوفساد کا وسیلہ ہو ، تواس طرح حرام کی جانب لےجانے والی چيز کوروکنا یعنی سدالذرائع دین کا چوتھا حصہ بنتا ہے ۔ دیھکیں : اعلام الموقعین ( 3 / 143 ) ۔
چہارم :
جاہل لوگوں کا دھوکہ میں آنا ، جب یہ جاہل لوگ دیکھتے ہیں کہ ان مساجداورآثاروالی جگہوں کی زيارت کرنے والے بہت زيادہ ہیں تووہ بھی یہ اعتقاد کرنے لگتےہیں کہ یہ عمل مشروع ہے ۔
پنجم :
اس میں وسعت اوران آثاروالی جگہوں کی سیروسیاحت کے مقصد کے سے زيارت کی دعوت دینا شرک کے ذرائع میں سے ہے ، فتوی اللجنۃ الدائمۃ ( مستقل فتوی کمیٹی سعودی عرب ) میں ہے کہ :
اس امرکی بناپرغارحراء میں چڑھنے سے منع کرنا چاہیے ، دیکھیں فتوی نمبر ( 5303 ) واللہ المستعان .