"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
اس نے واسط شہر میں ایک قول یہ بھی ہے کہ تستر شہر میں پرورش پائ اورصوفیوں کی ایک جماعت کے ساتھ میل جول رکھا جن میں سھل تستری اور جنید اورابوالحسن نوری وغیرہ شامل ہيں ۔
اس نے بہت سے ممالک کے سفر کیے جن میں مکہ ، خراسان شامل ہیں ، اورھندوستان سےجادو کا علم حاصل کیا اوربالآخر بغداد میں رہائش اختیار کی اور وہیں پرقتل ہوا ۔
انڈیا میں جادو سیکھا اوریہ بہت ہی حیلے اوردھوکہ باز تھا ، لوگو ں کو ان کی جہالت کی بنا پربہت سے لوگوں کودھوکہ دیا اورانہیں اپنی طرف مائل کرنے میں کامیاب ہوگيا حتی کہ لوگوں نے سمجھنا شروع کردیا کہ یہ اللہ تعالی کا بہت بڑا ولی ہے ۔
عام مستشرقین ( وہ کافر جومسلمانوں کا لبادہ اوڑھے ہوۓ ہیں ) کے ہاں یہ بہت مقبول ہے اوروہ اسے مظلوم سمجھتے ہيں کہ اسے قتل کردیاگیا ، اور اس کا سبب اس کا وہ عیسائ کلام اورتقریبا انہی کا عقیدہ ہے جس کا اعتقاد رکھتا تھا ، اس کے عقیدہ کا بیان آگے چل کر ذکر کیا جاۓ گا ۔
بغداد میں اسے زندیق اور کافر ہونے کی بنا پرجس کا اس نے خود بھی اقرار کیا تھا 309 ھ میں قتل کردیا گیا ۔
اوراس وقت کے علماء کرام نے اس کے قتل پراجماع کرلیا تھا کہ اس کے کفافراورزندیق ہونے کی بنا پریہ واجب القتل ہے ۔
اب آپ کے سامنے اس کے بعض اقوال پیش کیے جاتے ہیں جن کی بنا وہ مرتدہوکر واجب القتل ٹھرا :
1 - نبوت کا دعوی :
اس نے نبوت کا دعوی کیا حتی کہ وہ اس سے بھی اوپر چلا گیا اور پھر وہ یہ دعوی کرنے لگا یہ وہ ہی اللہ ہے ، ( نعوذباللہ ) تووہ یہ کہا کرتا کہ میں اللہ ہوں ، اوراس نے اپنی بہو کوحکم دیا کہ وہ اسے سجدہ کرے تواس نے جواب دیا کہ کیا غیراللہ کوبھی سجدہ کیا جاتا ہے ؟
توحلاج کہنے لگا ایک الہ آسمان میں ہے اورایک الہ زمین میں ۔
2 - حلول اوروحدت الوجود کا عقیدہ
حلاج حلول اوروحدت الوجود کا عقیدہ رکھتا تھا یعنی اللہ تعالی اس میں حلول کرگيا ہے تووہ اوراللہ تعالی ایک ہی چیز بن گۓ ہیں ، اللہ تعالی اس جیسی خرافات سے پاک اوربلند وبالا ہے ۔
اوریہی وہ عقیدہ اوربات ہے جس نے حلاج کومستشرقین نصاری کے ہاں مقبولیت سے نوازا اس لیے کہ اس نے ان کے اس عقیدہ حلول میں ان کی موافقت کی ، وہ بھی تویہی بات کہتےہیں کہ اللہ تعالی عیسی علیہ السلام میں حلول کرگيا ہے ۔
اورحلاج نے بھی اسی لیے لاھوت اورناسوت والی بات کہی ہے جس طرح کہ عیسائ کہتے ہيں حلاج اپنے اشعار میں کہتا ہے :
پاک ہے وہ جس نے اپنے ناسوت کوروشن لاھوت کے رازسے ظاہرکیا پھر اپنی مخلوق میں کھانے اورپینے والا بن کر ظاہرہوا ۔
جب ابن خفیف رحمہ اللہ تعالی نے یہ اشعاد سنے توکہنے لگے ان اشعار کے قائل پر اللہ تعالی کی لعنت برسے ، توان سے کہا گيا کہ یہ اشعار تو حلاج کے ہیں ، تو ان کا جواب تھا کہ اگر اس کا یہ عقیدہ تھا تووہ کافر ہے ۔ اھـ
3 - قرآن جیسی کلام بنانے کا دعوی :
حلاج نے ایک قاری کوقرآن مجید پڑھتے ہوۓ سنا توکہنے لگا اس طرح کی کلام تومیں بھی بنا سکتا ہوں ۔
4 - کفریہ اشعار :
اس کے کچھ اشعار کا ترجمہ یہ ہے :
اللہ تعالی کے متعلق لوگوں کے بہت سارے عقیدے ہیں ، میں بھی وہ سب عقیدے رکھتا ہوں جو پوری دنیا میں لوگوں نے اپنا رکھے ہیں ۔
یہ اس کی ایک ایسی کلام ہے جس میں اس نے دنیامیں پاۓ جانے والےگمراہ فرقوں میں پاۓ جانے والے ہرقسم کے کفر کا اقرار اوراعتراف کیا ہے کہ اس کا بھی وہی کفریہ عقیدہ ہے ، لیکن اس کے باوجود یہ ایک کلام ہے جس میں تناقض پایا جاتا ہے جسے صریحا عقل بھی تسلیم نہیں کرتی ، تویہ کیس ہو سکتا ہے کہ ایک ہی وقت میں توحید اور شرک کا عقید رکھا جاۓ یعنی وہ موحد بھی ہواور مشرک بھی ؟
5 - ارکان اورمبادیات اسلام کے مخالف کلام :
حلاج نے ایسی کلام کی جو کہ ارکان اورمبادیات اسلام کوباطل کرکے رکھ دیتی ہے یعنی نماز ، روزہ اورحج اورزکاۃ کوختم کرکے رکھ دے ۔
6 - مرنے کے بعد انبیاء کی روحوں کا مسئلہ :
اس کا کہنا تھا کہ انبیاء کے مرنے کے بعد ان کی روحيں ان کے صحابہ اورشاگردوں کے اجسام میں لوٹادی جاتی ہیں ، وہ کسی کو کہتا کہ تم نوح علیہ السلام اور دوسر ے کو موسی علیہ السلام قرار دیتا اور کسی اور شخص کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۔
7 - جب اسے قتل کے لیے لیجایا رہا تھا تووہ اپنے دوست واحباب کو کہنے لگا تم اس سے خوف محسوس نہ کرو ، بلاشبہ میں تیس روز بعد تمہارے پاس واپس آجاؤں گا ، اسے قتل کردیا گیا تووہ کبھی بھی واپس نہ آسکا ۔
توان اوراس جیسے دوسرے اقوال کی بنا پراس وقت کےعلماء نےاجماعا اس کے کفراور زندیق ہونے کا فتوی صادر کیا ، اوراسی فتوی کی وجہ سے اسے 309 ھـ میں بغداد کے اند قتل کردیا گيا ، اوراس طرح اکثر صوفی بھی اس کی مذمت کرتے اوریہ کہتے ہیں کہ وہ صوفیوں میں سے نہیں ، مذمت کرنے والوں میں جنید ، اور ابوالقاسم شامل ہیں اورابوالقاسم نے انہیں اس رسالۃ جس میں صوفیاء کے اکثر مشائخ کا تذکرہ کیا ہے حلاج کوذکر نہیں کیا ۔
اسے قتل کرنے کی کوشش کرنے والوں میں قاضی ابوعمر محمد بن یوسف مالکی رحمہ اللہ تعالی شامل ہیں انہیں کی کوششوں سے مجلس طلب کی گئ اور اس میں اسے قتل کا مستحق قرار دیا گیا ۔
ابن کثير رحمہ اللہ تعالی نے البدایۃ والنھایۃ میں ابوعمرمالکی رحمہ اللہ تعالی کی مدح سرائ کرتے ہوۓ کہا ہے کہ ان کے فیصلے بہت ہی زیادہ درست ہوتے اور انہوں نے ہی حسین بن منصورالحلاج کوقتل کیا ۔ ا ھـ دیکھیں البدایۃ والنھایۃ ( 11 / 172 ) ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیۃ رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے کہ :
جس نے بھی حلاج کے ان مقالات جیسا عقیدہ رکھا جن پروہ قتل ہوا تووہ شخص بالاتفاق کافراور مرتد ہے اس لیے کہ حلاج کومسلمانوں نےحلول اوراتحاد وغیرہ کا عقیدہ رکھنے کی بنا پرقتل کیا تھا ۔
جس طرح کہ زندیق اوراتحادی لوگ یہ کہتے ہیں مثلا حلا ج یہ کہتا تھا کہ :: میں اللہ ہوں ، اور اس کا یہ بھی قول ہے : ایک الہ آسمان میں ایک زمین میں ہے ۔
اورحلاج کچھ خارق عادت چیزوں اور جادو کی کئ ایک اقسام کا مالک تھا اوراس کی طرف منسوب کئ ایک جادو کی کتب بھی پائ جاتی ہیں ، تواجمالی طورتوامت مسلمہ میں اس کے اندر کوئ اختلاف نہيں کہ جس نے بھی یہ کہا کہ اللہ تعالی بشرمیں حلول کرجاتا اور اس میں متحد ہوجاتا ہے اوریا یہ کہ انسان الہ ہوسکتا ہے اوریہ معبودوں میں سے ہے تووہ کافر ہے اوراس کا قتل کرنا مباح ہے اوراسی بات پرحلاج کوبھی قتل کیاگیا تھا ۔ اھـ دیکھیں : مجموع الفتاوی ( 2 / 480 ) ۔
اورایک جگہ پرشیخ الاسلام رحمہ اللہ تعالی نے یہ کہا ہے کہ :
ہم مسلمان علماء میں سے کسی ایک عالم اورنہ ہی مشائخ میں سے کسی ایک شیخ کوبھی نہیں جانتے جس نے حلاج کا ذکر خیر کیا ہو ، لیکن بعض لوگ اس کے متعلق خاموشی اختیارکرتے ہيں اس لیے کہ انہیں حلاج کے معاملے کا علم ہی نہیں ۔ اھـ دیکھیں مجموع الفتاوی ( 2 / 483 )۔
معلومات میں مزید استفادہ کے لیے مندرجہ ذیل کتب کا مطالعہ کریں :
خطیب بغدادی رحمہ اللہ تعالی کی : تاریخ بغداد ( 8 / 112- 141 )
ابن جوزي رحمہ اللہ تعالی کی المنتظم ( 13/ 201 -206 ) ۔
امام ذھبی رحمہ اللہ تعالی کی سیر اعلام النبلاء ( 14 / 313- 354 ) ۔
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ تعالی کی البدایۃ والنھايۃ ( 11 / 132- 144 ) ۔
اللہ تعالی ہی سیدھے راہ کی راہنمائ کرنے والا ہے ۔
واللہ تعالی اعلم .