"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
کیا عرفہ کے دن غسل کرنا سنت ہے؟
الحمد للہ.
اول:
وقوفِ عرفہ کیلیے پاک ہونا شرط نہیں ہے، چنانچہ علمائے کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حائضہ اور جنبی کا وقوفِ عرفہ درست ہے۔
تاہم افضل یہی ہے کہ چھوٹی [بے وضگی]یا بڑی ناپاکی [جنابت] سے پاک ہو؛ کیونکہ وقوف کے دوران اللہ کا ذکر کرنا ہوتا ہے اور ذکرِ الہی کے وقت وضو کرنا مستحب ہے۔
سوال نمبر: (82029 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
دوم:
کئی صحابہ کرام سے ثابت ہے کہ عرفہ کے دن غسل کیا، ان میں سیدنا ابن مسعود، سیدنا ابن عمر اور سیدنا علی رضی اللہ عنہم شامل ہیں۔
بیہقی : (6124) میں زاذان رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے علی رضی اللہ عنہ سے غسل کے بارے میں استفسار کیا تو انہوں نے فرمایا: "تم چاہو تو روزانہ غسل کر سکتے ہو" اس پر سائل نے کہا: "نہیں میرا سوال خاص غسل کے بارے میں ہے" تو علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: (جمعہ کے دن، یوم عرفہ، عید الاضحی اور عید الفطر میں غسل کرو) اس روایت کو البانی نے "الإرواء" (1/177)میں صحیح کہا ہے۔
اسی طرح "الموسوعة الفقهية" (45/ 323) میں ہے کہ:
"شافعی ، حنبلی اور ایک قول کے مطابق مالکی فقہائے کرام اس بات کے قائل ہیں کہ وقوفِ عرفہ کیلیے غسل کرنا مسنون ہے؛ کیونکہ علی ، ابن مسعود اور ابن عمر رضی اللہ عنہم جب عرفہ جاتے تو غسل کر کے جاتے تھے۔
ویسے بھی وقوفِ عرفہ ایسی عبادت ہے جس میں تمام لوگ ایک جگہ میں جمع ہوتے ہیں چنانچہ اس کیلیے بھی غسل اسی طرح شرعی عمل ہے جیسے کہ جمعہ اور عیدین کیلیے غسل کرنا شرعی عمل ہے۔
جبکہ حنفی فقہائے کرام اور مالکی حضرات کے ہاں معتمد موقف یہ ہے کہ یومِ عرفہ کے دن کیلیے غسل کرنا مستحب ہے۔" انتہی
اور فقہائے کرام کے ہاں "مستحب" کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ عمل سنتِ غیر مؤکدہ ہے، یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سنت پر ہمیشگی نہیں فرمائی۔
دیکھیں: " حاشية ابن عابدين " (2/411)
مذکورہ بالا تفصیل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ چاروں فقہی مذاہب اس بات پر متفق ہیں کہ یومِ عرفہ کیلیے غسل کرنا شرعی عمل ہے، اور اس دن غسل کرنے والے کو ثواب ملے گا، اس کے شرعی عمل ہونے کی دلیل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عمل ہے۔
ابن ماجہ: (1316) میں الفاکہ بن سعد کہتے ہیں کہ: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر، عید الاضحی اور عرفہ کے دن غسل کرتے تھے"
لیکن یہ حدیث موضوع اور من گھڑت ہے، جیسے کہ البانی رحمہ اللہ نے " ضعیف ابن ماجہ " میں اسے من گھڑت قرار دیا ہے۔
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف یہ حدیث بھی منسوب کی جاتی ہے کہ: (ان دنوں میں غسل کرنا واجب ہے: جمعہ کے دن، عید الفطر ، عید الاضحی اور عرفہ کے دن)
لیکن اس حدیث کو بھی البانی رحمہ اللہ نے " ضعیف الجامع" (3929) میں ضعیف قرار دیا ہے۔
پہلے فتوی نمبر: (81949 ) میں گزر چکا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی مجلس میں لوگوں کےساتھ بیٹھنا چاہے تو اس کیلیے غسل، صفائی ستھرائی اور خوشبو کا اہتمام کرنا مستحب ہے، اور اسی میں یوم عرفہ کا وقوف بھی شامل ہوتا ہے۔
سوم:
یہ بات ذہن نشین ہونا ضروری ہے کہ یومِ عرفہ کے دن غسل کرنے کا حکم تمام مسلمانوں کیلیے نہیں ہے، بلکہ یہ صرف حجاج کرام کیلیے ہے؛ کیونکہ یہ عمل انہیں صحابہ کرام سے منقول ہے جو حج کر رہے تھے، ویسے بھی یہ غسل لوگوں کے یکجا اکٹھے ہونے کی وجہ سے ہے اور لوگوں کا یہ اکٹھ صرف عرفات میں ہوتا ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام سے حج میں تین مقامات پر غسل کرنا منقول ہے: احرام سے پہلے غسل، مکہ میں داخل ہوتے وقت غسل اور عرفہ میں غسل"انتہی
"مجموع الفتاوى" (26/ 132)
چہارم:
سنت اور مستحب کا لفظ فقہائے کرام کی اصطلاح میں ایک ہی چیز پر بولا جاتا ہے۔
البتہ کچھ فقہائے کرام نے سنت اور مستحب میں اصل ماخذ کی بنا پر فرق کیا ہے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"مستحب ، مسنون عمل کو کہتے ہیں ، جس کے کرنے کا حکم الزامی نہیں ہوتا، اگر کسی کام کے کرنے کا حکم الزامی ہو تو پھر وہ واجب ہو جاتا ہے۔
مستحب کا حکم یہ ہے کہ مستحب کام کرنے والے کو اس کے عمل پر ثواب ملتا ہے تاہم عمل نہ کرنے پر گناہ نہیں ہوتا، نیز عقل و نقل ہر دو اعتبار سے مستحب یا مسنون عمل کا ثواب واجب کے ثواب سے کم ہوتا ہے۔
نقل سے دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالی حدیث قدسی میں فرماتا ہے: (بندے کیلیے میرے قریب ترین ہونے کے واسطے سب سے پسندیدہ عمل فرض عبادات کو بجا لانا ہے) اس لیے دو رکعت فرض اللہ تعالی کے ہاں دو رکعت نفل سے زیادہ محبوب ہیں۔
عقلی دلیل یہ ہے کہ : اللہ تعالی نے اگر کسی چیز کو واجب قرار دیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ چیز زیادہ ضروری ہے، اور اس چیز کی بندوں کو نوافل سے زیادہ ضرورت ہے۔
سوال: کیا مستحب اور مسنون میں فرق روا رکھنا چاہیے؟
جواب: کچھ علمائے کرام نے یہ فرق کیا ہے کہ جو چیز قیاس سے ثابت ہو اسے مستحب کہتے ہیں اور جو چیز سنت یعنی دلیل سے ثابت ہو اسے مسنون کہتے ہیں۔
لیکن صحیح بات یہ ہے کہ دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے اور حقیقت میں یہ ایک اصطلاحی مسئلہ ہے ، چنانچہ حنبلی فقہائے کرام کے ہاں ان میں کوئی فرق نہیں ہے، چنانچہ ان کےہاں : "وضو کرتے ہوئے تین بار دھونا مستحب ہے" اور "وضو کرتے ہوئے تین بار دھونا مسنون ہے" ان دونوں جملوں میں کوئی فرق نہیں ہے، یہ صرف اصطلاحی بات ہے ، مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی مؤلف کتاب کے مقدمے میں کہے: اگر میں مسنون کا لفظ استعمال کروں تو وہ سنت سے ثابت عمل ہو گا، اور جس عمل کو میں مستحب سے تعبیر کروں تو وہ قیاس سے ثابت ہوگا، چنانچہ اس کے بعد اپنی اسی اصطلاح پر گامزن رہے تو اسے غلط نہیں کہا جائے گا" انتہی
دیکھیں: "الشرح الممتع" (6/421)
نیز دیکھیں: " كشاف القناع " از: بہوتی (1/87) ، اسی طرح " نهاية المحتاج " از: رملی (2/105)
واللہ اعلم.