الحمد للہ.
غسل بسا اوقات واجب ہوتا ہے اور بسا اوقات مستحب، علمائے کرام رحمہم اللہ نے یہ تمام حالات ذکر کئے ہیں اور ان کی غسل کے متعلق گفتگو کو تین قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
اول: متفقہ طور پر غسل واجب کرنے والی اشیا، یہ درج ذیل ہیں:
1- منی خارج ہو ، چاہے جماع کے بغیر نکلے۔
اس بارے میں "الموسوعة الفقهية" (31/195) میں ہے کہ:
"فقہائے کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ منی کے نکلنے سے غسل واجب ہو جاتا ہے، بلکہ نووی رحمہ اللہ نے اس بات پر اجماع نقل کیا ہے، اور اس میں مرد یا عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے، ایسے ہی منی بیداری میں خارج ہو یا نیند میں اس کے درمیان بھی کوئی فرق نہیں ، اس موقف کیلیے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث دلیل ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (یقیناً پانی سے پانی (غسل )ہے) اسے مسلم (343) نے روایت کیا ہے اور اس کا مطلب جیسے کہ نووی رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے یہ ہے : پانی سے غسل اس وقت واجب ہوتا ہے جب اچھل کر پانی یعنی منی خارج ہو" ختم شد
اس بارے میں مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (6010) ، (12317) اور (47693) کا جواب ملاحظہ کریں۔
2- مرد و زن کی شرمگاہیں مل جائیں کہ آلہ تناسل کی مکمل سپاری اندام نہانی میں داخل ہو جائے چاہے انزال نہ بھی ہو۔
اس کی مزید تفصیلات کیلیے آپ سوال نمبر: (7529) اور (36865) کا مطالعہ کریں۔
3- حیض
4- نفاس ان دونوں کے بارے میں الموسوعة الفقهية (31/204) میں ہے کہ:
"فقہائے کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حیض اور نفاس سے غسل واجب ہو جاتا ہے، ابن المنذر، ابن جریر طبری اور دیگر نے اس موقف پر اجماع نقل کیا ہے، حیض سے غسل واجب ہونے کی دلیل اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُواْ النِّسَاء فِي الْمَحِيضِ وَلاَ تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّىَ يَطْهُرْنَ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللّهُ
ترجمہ: وہ آپ سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیں: یہ گندگی ہے حیض کی حالت میں خواتین سے علیحدہ رہیں، اور ان کے پاک صاف ہونے تک ان کے قریب بھی نہ جائیں، پس جب وہ پاک ہو جائیں تو ان کے پاس وہاں سے آئیں جہاں سے تمہیں اللہ نے حکم دیا ہے۔[البقرہ: 222]" ختم شد
دوم: ایسے حالات جن میں متفقہ طور پر غسل کرنا واجب نہیں ہے بلکہ مستحب ہے:
1- لوگوں کے مجمع میں جانے سے پہلے غسل کرنا مستحب ہے
بغوی رحمہ اللہ کہتے ہیں: جو شخص لوگوں کی کثرت میں گھلے ملے تو وہ پہلے غسل کر کے صفائی ستھرائی اور خوشبو کا اہتمام کرے۔
اس میں عیدین کا غسل بھی شامل ہے، نووی رحمہ اللہ "المجموع" (2/233) میں کہتے ہیں: "متفقہ طور پر ہر ایک کیلیے [عید کے دن غسل کرنا] مستحب ہے، چاہے مرد ہوں یا عورتیں یا بچے؛ کیونکہ اس دن زیب و زینت اختیار کی جاتی ہے اور یہ سب [مرد، عورتیں اور بچے] زینت اختیار کرنے اہلیت رکھتے ہیں" ختم شد
اس بارے میں مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (48988) کا مطالعہ کریں۔
اسی میں نماز کسوف، استسقا، وقوف عرفہ، مشعر الحرام [مزدلفہ] اور ایام تشریق میں جمرات کو کنکریاں مارنے کیلیے غسل کرنا بھی شامل ہے، نیز اس کے علاوہ جہاں بھی لوگ عبادت کیلیے اپنے کسی کام کیلیے اکٹھے ہو رہے ہوں تو غسل کرنا مستحب ہے۔
2- جسمانی تبدیلی کے وقت: شافعی فقہا میں سے محاملی کہتے ہیں: "جسم میں کوئی بھی تبدیلی آئے تو اس وقت غسل کرنا مستحب ہے"
اس میں یہ بھی شامل ہے کہ: فقہائے کرام کہتے ہیں پاگل یا بے ہوش آدمی ہوش میں آ جائے تو غسل کرنا مستحب ہے، اسی طرح سینگھی لگوانے کے بعد، بال بنوانے کے بعد بھی غسل کرنا مستحب ہے؛ کیونکہ غسل کرنے سے جسم کے ساتھ لگے ہوئے بال اور خون وغیرہ صاف ہو جائے گا اور انسان معمول کی حالت پر آ جائے گا۔
مزید کیلیے دیکھیں: "المجموع" (2/234،235)
3- کچھ عبادت سے پہلے: مثلاً احرام باندھنے سے پہلے ؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس وقت احرام باندھا تو اپنے کپڑے اتار دئیے اور غسل فرمایا، ترمذی (830) میں یہ روایت موجود ہے۔
اسی طرح فقہائے کرام نے صراحت کے ساتھ طواف زیارت اور طواف وداع کیلیے غسل کرنا مستحب قرار دیا ہے اسی طرح شب قدر کے لئے ،مکہ میں داخل ہونے کے لئے جیسا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ جب بھی مکہ داخل ہونے لگتے تو غسل فرماتے، اور یہ بیان کرتے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کیا کرتے تھے۔
اس روایت کو بخاری: (1478) اور مسلم (1259)نے روایت کیا ہے۔
سوم: متنازع فیہ غسل اور ان کے متعلق صحیح موقف کا بیان:
1- میت کو غسل دینا:
جمہور اہل علم اس بات کے قائل ہیں کہ موت کی وجہ سے غسل واجب ہو جاتا ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی کی وفات کے وقت فرمایا تھا: ([میری بیٹی کو] تین بار یا پانچ بار یا اس بھی زیادہ بار غسل دینا) بخاری (1253) اور مسلم (939) نے اسے روایت کیا ہے۔
2- میت کو غسل دینے پر غسل کرنا:
علمائے کرام کا اس بارے میں اختلاف ہے؛ کیونکہ اس بارے میں منقول روایت کے ثابت ہونے میں اختلاف ہے، چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو شخص میت کو غسل دے وہ خود بھی غسل کرے) اسے احمد: (2/454) ، ابو داود (3161) اور ترمذی (993) نے روایت کیا ہے اور اسے حسن قرار دیا۔ جبکہ امام احمد "مسائل أحمد لأبي داود" (309) میں کہتے ہیں کہ: اس بارے میں کوئی حدیث ثابت نہیں ہے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ "الشرح الممتع" (1/411) میں کہتے ہیں:
"[میت کو غسل دینے والے کے غسل کے متعلق] مستحب کا موقف میانہ روی اور اقرب الی الحق ہے" ختم شد
اس بارے میں مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (6962) کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔
3- جمعہ کے دن غسل
امام نووی رحمہ اللہ "المجموع" (2/232) میں کہتے ہیں: "جمعہ کے دن غسل کرنا جمہور کے ہاں سنت ہے اور بعض سلف صالحین نے اسے واجب قرار دیا ہے۔" ختم شد
تاہم اس بارے میں صحیح موقف "الفتاوى الكبرى" (5/307) میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا ہے کہ : "جمعہ کے دن اس شخص کیلیے غسل کرنا واجب ہے جسے پسینہ آیا ہوا ہو ، یا اس کے جسم سے اتنی بو آ رہی ہو کہ دوسروں کو اذیت ہو" انتہی
4- جب کوئی غیر مسلم مسلمان ہو جائے
اس بارے میں الموسوعة الفقهية (31/205-206) میں ہے کہ:
"مالکی اور حنبلی فقہائے کرام کہتے ہیں کہ : کسی کافر شخص کا اسلام قبول کرنا موجب غسل ہے، لہذا کوئی بھی کافر اسلام قبول کرے تو اس پر غسل کرنا واجب ہو جاتا ہے؛ کیونکہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ جس وقت مسلمان ہوئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اسے فلاں کے باغ میں لے جاؤ اور اسے کہو کہ غسل کر لے) اسی طرح قیس بن عاصم جس وقت مسلمان ہوئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بیری کے پتوں اور پانی سے نہانے کا حکم دیا؛ نیز ایسی صورت میں غسل واجب ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کافر لوگ عام طور پر جنبی ہوتےاور غسل نہیں کرتے، تو اس غالب گمانی سبب کو یقینی سبب بنادیا گیا جیسے [وضو ٹوٹنے کیلیے]نیند اور [غسل واجب ہونے کیلیے]شرمگاہوں کے ملنے کو حقیقی سبب پر محمول کر لیا گیا۔
جبکہ حنفی اور شافعی فقہائے کرام کہتے ہیں کہ کافر جب جنبی نہ ہو تو اس کیلیے اسلام قبول کرنے پر غسل کرنا مستحب ہے؛ کیونکہ بہت زیادہ لوگوں نے اسلام قبول کیا لیکن انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل کرنے کا حکم نہیں دیا، تاہم اگر کوئی کافر اس حالت میں اسلام قبول کرتا ہے کہ وہ جنبی ہے تو پھر اس پر غسل واجب ہو گا۔
نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں: امام شافعی نے یہ موقف صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے اور اسی پر جمہور شافعی فقہائے کرام متفق ہیں" ختم شد
جبکہ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ "الشرح الممتع" (1/397) میں کہتے ہیں کہ:
"محتاط یہی ہے کہ غسل کر لے" ختم شد
واللہ اعلم.