"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
ہمارے علاقے خان يونس كا اسرائيلى فوج نے محاصرہ كر ركھا ہے، ہمارے سارے راستے بند ہو چكے ہيں اور بيويوں كو اپنے خاوندوں كے بارہ ميں كوئى علم نہيں لہذا بيوياں فطرانہ كيسے ادا كريں ؟
الحمد للہ.
خاندان كے سربراہ پر فطرانہ كى ادائيگى فرض ہے، كيونكہ صاحب مال وہى ہے، اس ليے اسے اپنى اور اپنى عيالت ميں موجود افراد بيوى بچوں كا فطرانہ ادا كرنا چاہيے.
اور اگر وہ فطرانہ كى ادائيگى سے عاجز ہو تو اللہ سبحانہ و تعالى اس كا عذر قبول فرمائيگا، جب اللہ سبحانہ و تعالى اسے رہائى دے اور وہ اپنے اہل و عيال ميں واپس جائے تو وہ اس كى قضاء ميں ادائيگى كرے.
بيويون كى مناسبت سے يہ ہے كہ اگر وہ فطرانہ ادا كرنے كى استطاعت ركھتى ہيں تو اپنا فطرانہ ادا كرنے ميں جلدى كريں، اور اگر وہ عاجز ہوں تو ان پر كچھ گناہ نہيں كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
تم اللہ كا تقوى اپنى استطاعت كے مطابق اختيار كرو .
اور فرمان بارى تعالى ہے:
اللہ تعالى كسى بھى جان كو اس كى استطاعت سے زيادہ مكلف نہيں كرتا.
جب عورت اپنا اور اپنى اولاد كا فطرانہ ادا كرے تو وہ عند اللہ ماجور ہے، اور اگر صرف وہ اپنا فطرانہ ہى ادا كر سكتى ہے اولاد كا نہيں تو اس ميں بھى اس پر كوئى حرج نہيں.
اور اگر بيوى خاوند سے ٹيلى فون پر بات چيت كر سكتى ہے اور فطرانہ كى ادائيگى كے ليے وكيل بن جائے اور گھر ميں اپنے اور خاوند اور بچوں كے فطرانہ كى ادائيگى كے ليے بھى كچھ ہو تو وہ خاوند كى اجازت سے ان سب كا فطرانہ ادا كر دے.
اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ ان خاوندوں كى پريشانى كو دور فرمائے اور انہيں صحيح سالم واپس لائے، اور اسلام و مسلمانوں كى مدد و نصرت فرمائے اور يہوديوں اور كافروں كو ذليل و رسوا كرے.
اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے.
واللہ اعلم .