"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
کیا میں دایہ بننے کے لیے اپنی تعلیم جاری رکھ سکتی ہوں؟ ہسپتال میں میرے آس پاس صرف شریک طالبات اور خواتین اساتذہ ہوں گی، میں اس سال تھیوری کے ساتھ ساتھ عملی تجربہ حاصل کرنا شروع کروں گی جو کہ مجھے کسی بھی اسپتال میں حاصل کرنا ہو گا، اس ہسپتال میں مجھے وقت پر نماز پڑھنے اور حجاب پہننے کی بھی اجازت ہو گی۔ اس دوران مجھے ڈھیلی ڈھالی اور وسیع یکساں وردی بھی پہننی ہو گی۔ وردی کا رنگ دیگر تمام دایاؤں کی طرح سفید ہو گا۔ قمیص میرے گھٹنوں تک ہو گی پتلون کھلی اور بڑی ساری ہو گی۔ وردی پہن کر میں اپنے بازو کے نچلے حصے کو ڈھانپ نہیں پاؤں گی کیونکہ ہاتھوں کے اس حصے پر بار بار خون اور دیگر سائل چیزیں وردی کو میلا کر دیتی ہیں۔ میں یورپ میں رہتی ہوں ، میں عورت کی صحت کی دیکھ بھال میں اپنا حصہ ڈالنے اور اپنی پریکٹس شروع کرنے کے لئے اس تعلیم کو مکمل کرنا چاہتی ہوں۔ لیکن دایہ بننے کے لیے مجھے مندرجہ بالا حالات میں کسی اسپتال میں تجربہ حاصل کرنے کی ضرورت ہے ، جس اسپتال میں میں کام کروں گی وہاں دایہ کا کام صرف خواتین کرتی ہیں ، اور ماہر امراض نسواں بھی خواتین ہی ہیں۔ میں نے ڈیڑھ سال مکمل کر لیا ہے اور اب بھی 2 سال مزید کی ضرورت ہے۔ مجھے تقریباً کل 5 مہینوں تک کسی اسپتال میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ مجھے واضح مشورے کی ضرورت ہے، ہو سکے تو اس مخصوص طبی شعبے کی اہمیت بھی واضح کر دیں ۔
الحمد للہ.
اول:
دایہ کا کام کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے چاہے یہ معاوضہ لے کر کیا جائے یا بغیر معاوضے کے کریں، یہ کام مسلمانوں کے لیے بہت ہی مفید ہے، اس لیے اگر یہ کام کرتے ہوئے کسی کی نیت اچھی ہے تو اس کے لیے اجر کی امید بھی کی جا سکتی ہے۔
دوم:
کسی ہسپتال میں اتنے عرصے کے لیے کام کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے جس سے آپ دایہ بننے کی اہل بن جائیں، نیز آپ نے اسپتال میں نماز اور حجاب کا ذکر کیا تو یہ ایک اچھا معاملہ ہے۔
جبکہ وردی کے بارے میں یہ ہے کہ آپ اپنے گھر سے مکمل حجاب اور پردے میں نکلیں، اور اسپتال پہنچ کر آپ اپنی وردی پہن لیں۔
جبکہ دونوں بازوؤں کو مکمل یا جزوی طور پر اجنبی مردوں کی موجودگی میں کھولنا جائز نہیں ہے، اس لیے آپ اجنبی مردوں کی موجودگی میں بازو ڈھانپ کر رکھنے کی کوشش کریں، اس کے لیے آپ طبی دستانے دہرے کر کے یا اسی طرح کی اور کوئی بھی چیز پہن سکتی ہیں تا کہ آپ کے بازو عیاں نہ ہوں۔
فقہائے کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عورت کا سارا بدن ہی ستر ہے، صرف چہرے اور ہاتھوں کے بارے میں اختلاف ہے، ہتھیلی سے اوپر والا حصہ متفقہ طور پر ڈھانپا جائے گا۔
تاہم دونوں ہتھیلیوں کے بارے میں بھی راجح یہی ہے کہ انہیں بھی ڈھانپا جائے گا۔
اور اگر اجنبی لوگ نہیں ہیں تو پھر اپنے بازو کھولنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
واللہ اعلم