"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
حمل اورولادت کی وجہ سے میرے ذمہ گزشتہ رمضان کے بہت سارے روزے تھے ، الحمدللہ میں نے اس کی قضاء میں روزے رکھے اورصرف سات باقی بچے جن میں سے تین تو نصف شعبان کے بعد رکھے ، اوررمضان سے قبل باقی بھی مکمل کرنا چاہتی ہوں ۔
میں نے آپ کی ویب سائٹ پر پڑھا کہ نصف شعبان کے بعد روزے رکھنے جائزنہيں صرف عادتا روزے رکھنے والے کے جائز ہیں مجھے آپ معلومات فراہم کریں اللہ تعالی آپ کو مستفید فرمائے میں معلوم کرنا چاہتی ہوں کہ کیا میں اپنے باقیماندہ روزے بھی کرلوں کہ نہیں ؟ اوراگرجواب نفی میں ہو تو ان تین ایام کے روزوں کا حکم کیا ہے آیا مجھے اس کی دوبارہ قضاء کرنا ہوگي کہ نہيں؟
الحمد للہ.
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا :
( نصف شعبان کے بعد روزے نہ رکھو ) سنن ابوداود حدیث نمبر ( 3237 ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 738 ) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 1651 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے اسے صحیح ترمذی میں صحیح قرار دیا ہے ۔
اس نہی سے مندرجہ ذيل مستثنی ہیں :
1 - جسے روزے رکھنے کی عادت ہو ، مثلا کوئي شخص پیر اورجمعرات کا روزہ رکھنے کا عادی ہو تووہ نصف شعبان کے بعد بھی روزے رکھے گا ، اس کی دلیل نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مندرجہ ذيل فرمان ہے :
( رمضان سے ایک یا دو یوم قبل روزہ نہ رکھو لیکن جوشخص روزہ رکھتا ہو وہ رکھ لے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1914 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1082 ) ۔
2 - جس نے نصف شعبان سے قبل روزے رکھنے شروع کردیے اورنصف شعبان سے پہلے کو بعدوالے سے ملادیا تویہ نہی میں نہيں آئے گا اس کی دلیل عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کی حدیث ہے جس میں وہ بیان کرتی ہیں کہ :
( نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تقریبا سارا شعبان ہی روزے رکھتے تھے صرف تھوڑے سے ایام کے علاوہ باقی پورا مہینہ ہی روزے رکھتے تھے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1970 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1156 ) ۔
امام نووی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
قولھا : ( نبی صلی اللہ علیہ وسلم سارا شعبان ہی روزہ رکھتے تھے صرف تھوڑے ايام کے علاوہ باقی سارا مہینہ ہی روزہ رکھتے تھے ) دوسرا جملہ پہلے کی تفسیر ہے اوران کے قول کلہ کا معنی مہینہ کا اکثر ہے ۔ اھـ
تویہ حديث نصف شعبان کے بعد روزے رکھنے کے جواز پر دلالت کرتی ہے لیکن اس کےلیے جوپہلے نصف کو دوسرے نصف سے ملائے ۔
3 - اس سے رمضان کی قضاء میں روزے رکھنے والا بھی مستثنی ہوگا ۔
امام نووی رحمہ اللہ تعالی اپنی کتاب المجموع میں کہتے ہیں :
ہمارے اصحاب کا کہنا ہے : بلااختلاف رمضان کےیوم الشک کا روزہ رکھنا جائز نہيں ۔۔۔ لیکن اگر اس میں قضاء یا نذر یا کفارہ کا روزہ رکھا جائے توجائز ہوگا، اس لیے کہ جب اس میں نفلی روزہ رکھا جاسکتا ہے تو فرضی روزہ رکھنا بالاولی جائز ہوگا ۔۔۔
اوراس لیے بھی کہ جب اس پرگزشتہ رمضان کے روزہ کی قضاء باقی ہو تواس پریہ روزہ رکھنا تومتعین ہوچکا ہے ، کیونکہ اس کی قضاء کے لیے وقت تنگ ہے ۔ اھـ
دیکھیں : المجموع للنووی ( 6 / 399 ) ۔
یوم الشک وہ ہے جب انتیس شعبان کو مطلع ابرآلود ہونے کی بنا پر چاند نہ دیکھا جاسکتا ہو توتیس شعبان کو یوم الشک قراردیا جائے گا ، اس لیے کہ یہ مشکوک ہے کہ آیا یہ شعبان کا آخری دن ہے یا کہ رمضان کا پہلا دن۔
جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ :
شعبان کے نصف ثانی میں قضاء کے روزے رکھنے میں کوئي حرج نہیں ، اورایسا کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شعبان کے آخر میں روزہ رکھنے والی نہی میں شامل نہیں ہوتا ۔
اس لیے ہم یہ کہیں گے کہ آپ کےتین روزے صحیح ہیں اورآپ باقی روزے بھی رمضان سے قبل ہی مکمل کرلیں ۔
واللہ اعلم .