اسلام سوال و جواب کو عطیات دیں

"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "

كيا نماز كے وقت كے علاوہ بھى وضوء كرنا ضرورى ہے ؟

23-03-2007

سوال 8924

كيا كسى روايت ميں ملتا ہے كہ نماز كے اوقات كے علاوہ بھى قضائے حاجت پيشاب وغيرہ كرنے كے بعد وضوء كرنا ضرورى ہے، يہ علم ميں رہے كہ اس سلسلہ ميں مجھے بہت وسوسے آتے ہيں، اور ميرے ليے خاوند كے ساتھ مشكل بن جاتى ہے، وہ كہتے ہيں كہ يہ دين ميں غلو اور بدعت شمار ہوتا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جب بھى وضوء ٹوٹے تو لازمى وضوء كرنے كى كوئى دليل وارد نہيں، جب انسان نماز ادا كرنا چاہے تو اس كے لے حدث اكبر ہو يا حدث اصغر طہارت كرنا ضرورى ہے، كيونكہ آيت ميں نماز كى ادائيگى كے وقت وضوء كرنے كا حكم آيا ہے.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اے ايمان والو جب تم نماز كے ليے كھڑے ہوؤ تو اپنے چہرے اور كہنيوں تك ہاتھ دھو ليا كرو، اور اپنے سروں كا مسح كرو، اور دونوں پاؤں ٹخنوں تك دھويا كرو، اور اگر تم جنابت كى حالت ميں ہو تو پھر طہارت كرو اور اگر تم مريض ہو يا سفر ميں يا تم ميں سے كوئى ايك پاخانہ كرے يا پھر بيوى سے جماع كرے اور تمہيں پانى نہ ملے تو پاكيزہ مٹى سے تيمم كرو اور اس سے اپنے چہرے اور ہاتھوں پر مسح كرلو، اللہ تعالى تم پر كوئى تنگى نہيں كرنا چاہتا، ليكن تمہيں پاك كرنا چاہتا ہے، اور تم پر اپنى نعمتيں مكمل كرنى چاہتا ہے، تا كہ تم شكر كرو المآئدۃ ( 6 ).

اور ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم قضاء حاجت كر كے آئے تو ان كے سامنے كھانا ركھا گيا، اور صحابہ نے عرض كيا اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كيا ہم آپ كے ليے وضوء كا پانى لائيں ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

مجھے حكم ديا گيا ہے كہ جب ميں نماز ادا كرنے لگوں تو وضوء كروں "

سنن ترمذى كتاب الاطعمۃ حديث نمبر ( 1770 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن ترمذى حديث نمبر ( 1506 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

يہ حديث اس كى دليل ہے كہ نماز كى ادائيگى كے علاوہ وضوء كرنا لازم نہيں، ليكن كچھ ايسے اعمال ہيں جنہيں كرتے وقت وضوء كرنا مستحب ہے مثلا قرآن مجيد كى تلاوت، اور سوتے وقت وضوء كرنا مستحب ہے.

يہ معلوم ہونا چاہيے كہ ايك ہى وضوء كے ساتھ كئى نمازيں ادا كرنا جائز ہيں، جب تك وضوء قائم ہے نمازيں ادا كرسكتا ہے.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ آپ نے فتح مكہ كے روز سارى نمازيں ايك ہى وضوء كے ساتھ ادا فرمائيں، اور اپنے موزوں پر مسح كيا تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے عرض كيا:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم آپ نے ايسا كام كيا ہے جو ميں آج سے قبل آپ كو كرتے ہوئے نہيں ديكھا؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

اے عمر ميں نے ايسا كام عمدا اور جان بوجھ كر كيا ہے "

صحيح مسلم كتاب الطہارۃ حديث نمبر ( 415 ).

امام نووى رحمہ اللہ تعالى اس كى شرح كرتے ہوئے كہتے ہيں:

يہ حديث اس كى دليل ہے كہ فرضى اور نفلى نمازيں ايك ہى وضوء سے ادا كرنا جائز ہيں، جب تك وضوء قائم ہے نمازيں ادا كرنا جائز ہيں، قابل اعتماد علماء كے اجماع سے ايسا كرنا جائز ہے.

واللہ اعلم .

وضو
اسلام سوال و جواب ویب سائٹ میں دکھائیں۔