"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
میں اور میرا بھائی ایک قربانی کر سکتے ہیں؟ واضح رہے کہ ہم الگ الگ مکان میں دو مختلف شہروں میں رہتے ہیں تاہم عید کے دنوں میں والدہ کے ساتھ اکٹھے ہوتے ہیں، ہمارے والد صاحب فوت ہو چکے ہیں، اور والدہ کبھی میرے پاس رہتی ہیں تو کبھی میرے بھائی کے پاس، اور اگر والدہ اپنے ذاتی مال سے قربانی خرید لے تو کیا یہ میرے اور میرے بھائی کی طرف سے بھی ہو جائے گی؟
الحمد للہ.
اول:
جمہور فقہائے کرام کے مطابق عید الاضحی کے موقع پر قربانی سنت مؤکدہ ہے واجب نہیں ہے، تاہم کچھ اہل علم صاحب استطاعت کیلیے قربانی کو واجب قرار دیتے ہیں، قربانی واجب ہونے کا موقف امام ابو حنیفہ ایک روایت کے مطابق امام احمد کا ہے اور اسی کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"قربانی کو واجب قرار دینا عدم وجوب سے زیادہ مضبوط ہے، تاہم واجب قرار دینے کیلیے استطاعت شرط ہے" انتہی
"الشرح الممتع" (7/422)
دوم:
ایک قربانی گھر کے سربراہ اور اہل خانہ کی طرف سے کافی ہوتی ہے؛ جیسے کہ ترمذی: (1505) اور ابن ماجہ: (3147) میں عطاء بن یسار رحمہ اللہ کہتے ہیں : میں نے ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے استفسار کیا: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قربانی کیسے ہوتی تھیں؟" تو انہوں نے کہا: "گھر سربراہ ایک بکری اپنی اور اہل خانہ کی طرف سے ذبح کرتا تھا، اور سب اس میں خود بھی کھاتے اور دوسروں کو بھی کھلاتے تھے" اسے البانی نے صحیح ترمذی میں صحیح قرار دیا ہے۔
"تحفۃ الاحوذی" میں ہے کہ:
"اس حدیث میں بالکل واضح صراحت ہے کہ ایک بکری گھر کے سربراہ اور اس کے اہل خانہ کی جانب سے کافی ہو گی چاہے ان کی تعداد کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو"
اسی طرح شوکانی رحمہ اللہ "نیل الاوطار" میں لکھتے ہیں:
"صحیح بات یہ ہے کہ ایک بکری گھر کے سارے افراد کی جانب سے کافی ہو گی، چاہے ان کی تعداد سینکڑوں کی تعداد میں ہی کیوں نہ ہو، جیسے کہ احادیث سے یہ بات اٹل انداز میں ملتی ہے" انتہی مختصراً
سوم:
گھر کے افراد میں بیوی، بچے اور اسی طرح وہ رشتہ دار بھی گھر کے افراد میں شامل ہیں جو اسی گھر میں ایک ہی سربراہ کی کفالت میں رہتے ہیں یا پھر کھانے پینے کے اخراجات میں اپنا حصہ ڈال کے ایک جگہ کھاتے پیتے ہیں۔
لیکن جو افراد الگ گھر میں رہتے ہوں ، یا گھر تو ایک ہو لیکن چولہا الگ ہو تو پھر ایک بکری دونوں کی طرف سے جائز نہیں ہو گی ، ان کیلیے الگ الگ قربانی کرنا جائز ہے۔
امام مالک رحمہ اللہ گھر کے سربراہ کے ساتھ قربانی میں شریک ہونے والے افراد کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں:
"جو لوگ بھی اس کی زیر کفالت ہیں سب اس کے ساتھ قربانی میں شریک ہو سکتے ہیں چاہے ان کی تعداد تھوڑی ہو یا زیادہ"
امام محمد نے امام مالک سے یہ بات نقل کرتے ہوئے اضافہ کیا ہے کہ: "گھر کے سربراہ کی اولاد اور غریب والدین بھی شامل ہو سکتے ہیں"
جبکہ ابن حبیب کہتے ہیں کہ: "گھر کا سربراہ اپنے بالغ بچوں کو بھی قربانی میں شریک کر سکتا ہے چاہے وہ مالدار ہی کیوں نہ ہوں، اسی طرح اپنے بھائی، بھتیجے ، اور دیگر ایسے رشتہ دار جو اس کی اور اس کے اہل خانہ کی کفالت میں پرورش پا رہے ہوں، تو انہوں نے تین اسباب کی بنا پر قربانی میں شریک کرنے کی اجازت دی ہے : رشتہ داری، اکٹھی رہائش، اور خرچے کی ذمہ داری"
[امام مالک کے شاگرد] محمد کہتے ہیں: " گھر کا سربراہ اپنی بیوی کو بھی قربانی میں شریک کر سکتا ہے ؛ کیونکہ بیوی کا درجہ رشتہ داروں سے زیادہ ہے" انتہی
"التاج والإكليل شرح مختصر خليل" (4/364)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے استفسار کیا گیا:
"کیا دو سگے بھائی جو ایک ہی گھر میں رہتے ہوں اور دونوں کے بچے ایک جگہ کھاتے پیتے ہوں تو وہ ایک ہی قربانی میں شریک ہو سکتے ہیں؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"ہاں یہ جائز ہے کہ ایک گھر کے افراد چاہے وہ دو خاندانوں پر ہی مشتمل کیوں نہ ہو ایک ہی قربانی کر سکتے ہیں اور اس طرح انہیں قربانی کرنے کی فضیلت بھی حاصل ہو جائے گی" انتہی
ماخوذ از: "فتاوى نور على الدرب"
شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے استفسار کیا گیا:
"میں شادی شدہ ہوں اور میرے بچے بھی ہیں، لیکن میں اپنے بچوں کے ساتھ دوسرے شہر میں رہتا ہوں اور میرے والدین وغیرہ دوسرے شہر میں رہتے ہیں، چھٹیوں میں ان سے ملنے کیلیے میں آتا ہوں، اس عید الاضحی کے موقع پر میں اور میرے بچے عید سے پانچ دن پہلے والد صاحب کے پاس آ گئے تھے ، لیکن میں نے اپنی الگ قربانی نہیں کی؛ حالانکہ –الحمد للہ-میں صاحب حیثیت بھی ہوں۔
تو کیا میرے لیے الگ سے قربانی کرنا جائز ہے؟ اور کیا میرے والد صاحب کی طرف سے کی ہوئی قربانی میری اور میرے بیوی بچوں کی طرف سے بھی ہو جائے گی؟ نیز صاحب استطاعت کیلیے قربانی کرنے کا کیا حکم ہے؟ اگر کسی کے پاس استطاعت نہ ہو تو کیا تب بھی قربانی واجب ہے؟ نیز کیا تنخواہ ملنے تک قرضہ اٹھا کر قربانی کرنا جائز ہے؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"قربانی سنت ہے واجب نہیں ہے؛ ایک بکری بھی گھر کے سربراہ اور اس کے اہل خانہ کی طرف سے کافی ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال دو چتکبرے سینگوں والے مینڈھے ذبح کرتے تھے ، ایک اپنی اور اہل خانہ کی طرف سے اور دوسرا آپ کی امت کے موحدین کی طرف سے۔
سائل اگر الگ گھر میں رہتا ہے تو اس کیلیے اپنی اور اپنے اہل خانہ کی جانب سے الگ قربانی کرنا جائز ہے، ایسی صورت میں والد کی قربانی سائل اور سائل کے اہل خانہ کی طرف سے نہیں ہو گی؛ کیونکہ سائل والد کے ساتھ ایک رہائش میں نہیں رہتا، بلکہ سائل کا الگ مکان ہے، نیز اگر قرضہ چکانے کی استطاعت رکھتا ہو تو قرضہ اٹھا کر قربانی کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، اللہ تعالی سب کو توفیق دے" انتہی
"مجموع فتاوى الشيخ ابن باز" (18/37)
چہارم:
مندرجہ بالا تفصیلات کی بنا پر:
"آپ کی قربانی آپ کے بھائی کی جانب سے جائز نہیں ہو گی، چاہے آپ عید کے دنوں میں اکٹھے ہی کیوں نہ ہو جائیں، اسی طرح بھائی کی طرف سے کی ہوئی قربانی بھی آپ کی طرف سے نہیں ہو گی۔
البتہ آپ کی والدہ جہاں ہو وہاں رہ کر جو قربانی کرے گی وہ آپ کی والدہ اور اس گھر کےا فراد کی طرف سے ہو جائے گی۔
مزید کیلیے سوال نمبر: (41766) اور (45768) کا جواب ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم.