اسلام سوال و جواب کو عطیات دیں

"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "

شادی کیلئے جمع شدہ رقم کی زکاۃ ادا نہ کرنے والے کا حکم

23-04-2016

سوال 128166

سوال: میں عرصہ سات سال سے شادی کیلئے رقم جمع کر رہا ہوں، الحمد للہ، میری شادی ہو گئی ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ میں نے اس رقم کی زکاۃ ادا نہیں کی، کیونکہ میں یہ سمجھتا رہا کہ جس رقم کو شادی کیلئے جمع کیا جائے اس پر زکاۃ نہیں ہوتی، تو اب مجھے کیا کرنا چاہیے، اور اس وقت شادی کیلئے جمع شدہ تمام رقم ختم ہو چکی ہے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

کسی بھی مسلمان کے پاس نصاب کے برابر مال جمع ہو جائے اور اس پر سال بھی گزر جائے تو سال مکمل ہونے کے فوری بعد اس کی زکاۃ ادا کرنا ضروری ہے، چنانچہ اگر کسی کے پاس زکاۃ ادا کرنے کی استطاعت بھی تھی، اور اس کے با وجود اس نے تاخیر کی تو اس تاخیر کی وجہ سے گناہ گار ہوگا۔

چنانچہ نووی رحمہ اللہ "المجموع" (5/308) میں کہتے ہیں:
"جب زکاۃ واجب ہو جائے اور زکاۃ ادا کرنے کی استطاعت بھی ہو تو اسے فوری طور پر ادا کرنا واجب ہے، اور تاخیر کرنے کی صورت میں مالک، احمد، اور جمہور علمائے کرام کے ہاں گناہگار ہوگا" انتہی

اور ہر ایسے مال میں زکاۃ واجب ہے جو نصاب کو پہنچ جائے اور اس پر سال گزر چکا ہو، چاہے یہ مال شادی کیلئے یا مکان وغیرہ ۔۔۔ کیلئے جمع کیا گیا ہو۔

اس مسئلہ کی مکمل وضاحت  پہلے سوال نمبر: (41805) کے جواب میں بیان ہو چکی ہے۔

شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ سے "نور علی الدرب" میں  استفسار کیا گیا:
"میں صاحب ملازمت  نوجوان ہوں، میری محدود آمدن ہے، اس آمدن کا کچھ حصہ اپنی ضروریات کیلئے صرف کرتا ہوں، اور باقی بینک میں جمع کر لیتا ہوں، تا کہ مناسب رقم جمع ہونے پر شادی کیلئے مکان تعمیر کر سکوں، اور اب تک میرے پاس 55 ہزار ریا ل جمع ہو چکے ہیں۔۔۔ تو سوال یہ ہے کہ : کیا مجھے ان تین سالوں کی زکاۃ ادا کرنا ہوگی؟ کیونکہ میں نے سنا ہے کہ جو شخص شادی کیلئے یا مکان کی تعمیر کیلئے مال جمع کر رہا ہے تو اس پر کوئی زکاۃ نہیں ہے۔"

تو انہوں نے جواب دیا:

"یہ بات غلط ہے، صحیح یہ ہے کہ اس پر بھی زکاۃ ہوگی، چاہے شادی کیلئے مال جمع کرے یا رہائشی مکان کی  تعمیر  کیلئے یا قرض چکانے کیلئے، کیونکہ  مجموعی مال پر زکاۃ اسی وقت لاگو ہو جائے گی جب اس پر سال گزر جائے گا، چنانچہ اگر آپ نے اپنی تنخواہ ، فروخت شدہ زمین کی قیمت، اور بینک اکاؤنٹ میں موجود رقم  یا کہیں اور محفوظ شدہ رقم کو کسی بھی مقصد کیلئے رکھا ہے تو سال گزرنے پر زکاۃ  ادا کرنا واجب ہوگا، چاہے یہ مقصد مکان کی تعمیر، زمین کی خریداری، یا شادی وغیرہ کی شکل میں ہو، اور زکاۃ ادا کرتے وقت سارے مال کو جمع  کر کے زکاۃ ادا کی جائے گی۔۔۔" انتہی
http://www.binbaz.org.sa/mat/13601

اسی طرح شیخ صالح فوزان حفظہ اللہ سے حج کیلئے کسی اسلامی بینک میں جمع شدہ رقم پر زکاۃ سے متعلق استفسار کیا گیا کہ اس پر زکاۃ ہے یا نہیں؟:
تو انہوں نے جواب دیا:
"اگر مال خود  نصاب کو پہنچ جائے یا کسی دوسری چیز کو ملانے سے نصاب مکمل ہوتا ہو ، اور اس پر سال بھی گزر جائے تو اس پر زکاۃ واجب ہوگی، چاہے جمع شدہ مال حج کیلئے ہو یا دیگر ضروریات کیلئے ہو؛ کیونکہ  نقدی، سامانِ تجارت، یا چرنے والے جانور کی صورت میں کوئی بھی مال ایک سال مالک کی ملکیت میں  گزار دے تو   ہر سال پورا ہونے پر زکاۃ ادا کرنا واجب ہوگا" انتہی
" المنتقى من فتاوى الفوزان "

مذکورہ بالا وضاحت کے بعد آپ کیلئے ان گزشتہ سالوں کی زکاۃ ادا کرنا واجب ہے جن میں آپ کے پاس  نصاب کے برابر مال تھا، اور آپ نے اس کی زکاۃ ادا نہیں کی، اگر بالفرض اپ کے پاس ابھی رقم نہیں ہے تو یہ زکاۃ آپ کے ذمہ قرض رہے گی، چنانچہ جس وقت بھی آپ کے پاس زکاۃ  کیلئے رقم ہو تو آپ زکاۃ ادا کرینگے، اس کیلئے آپ واجب زکاۃ کی رقم  اپنے پاس لکھ کر رکھ لیں، اور جس قدر زکاۃ کا مال ادا کریں تو اسے بھی اپنی پاس لکھتے جائیں، تا کہ آپ کو ادا شدہ اور باقی ماندہ زکاۃ کے بارے میں مکمل علم ہو۔

نووی رحمہ اللہ "المجموع (5/310) میں کہتے ہیں:
"اگر مال پر کئی سال گزر جائیں اور ان میں زکاۃ ادا نہ کی گئی ہو تو سارے مال پر زکاۃ ادا کرنا  لازم ہوگا چاہے اسے زکاۃ فرض ہونے کا علم ہو یا نہ ہو۔۔۔" انتہی

شیخ محمد بن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"میں دس سال تک پیسے جمع کرتا رہا پھر میں نے اسی رقم سے  شادی کی اور گاڑی خریدی، لیکن اس تمام عرصے کے دوران میں نے زکاۃ بالکل بھی ادا نہیں کی، تو اب اس کا کیا حکم ہے؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر شادی  یا مکان کیلئے  پیسے  جمع کر رہا ہے تو اس پر زکاۃ نہیں ہے، یہ بات صحیح نہیں ہے، چنانچہ  مال پر زکاۃ واجب ہوگی، چاہے ضروریات ، شادی، یا مکان کیلئے ہو ۔

سائل کو ہم یہ بھی کہتے ہیں: سابقہ  سالوں میں موجود رقم کا حساب لگا کر  اس کی زکاۃ ادا کریں۔

ویسے ہر انسان کو  اہل علم سے مسائل دریافت کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے، چنانچہ اتنے سالوں تک اہل علم سے استفسار نہ کرنا  سستی اور کاہلی ہے" انتہی
"مجموع فتاوى ابن عثیمین" (18/302)

دائمی کمیٹی کے علمائے کرام  سے پوچھا گیا:
"اگر کسی کے پاس نصاب کے برابر مال ہو ، اور کئی سال تک زکاۃ کی ادائیگی میں تاخیر  کر دے تو کیا سابقہ سالوں کی زکاۃ ادا کرنا جائز ہے؟ اور اگر سابقہ سالوں میں موجود مال کی مقدار کا اندازہ لگانا مشکل ہو تو  پھر کیا طریقہ اپنائے؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"1- جس پر زکاۃ واجب ہو اور کسی شرعی عذر کے بغیر  مؤخر کردے تو اسے گناہ ہوگا؛ کیونکہ کتاب و سنت میں زکاۃ وقت پر ادا کرنا واجب ہے۔

2- جس پر زکاۃ ادا کرنا واجب ہو، اور مقررہ وقت پر زکاۃ ادا نہ کرے تو بعد میں بھی اس پر زکاۃ ادا کرنا واجب ہے، چاہے زکاۃ کی ادائیگی میں تاخیر متعدد سالوں  تک ہی کیوں نہ ہو جائے، چنانچہ گزشتہ جتنے بھی سالوں کی زکاۃ  ادا نہیں کی گئی سب کی زکاۃ ادا کی جائے گی، اور اس کیلئے یقینی مال کی مقدار علم نہ ہو تو غالب گمان کے مطابق  مال کی مقدار کا حساب لگا کر سب سالوں کی زکاۃ ادا کر دی جائے گی، کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے: (فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ) اپنی استطاعت کے مطابق تقوی الہی اختیار کرو[التغابن:16]" انتہی
فتاوى "اللجنة الدائمة" (9/395)

واللہ اعلم.

زکاۃ کس میں واجب ہے
اسلام سوال و جواب ویب سائٹ میں دکھائیں۔