سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

لڑکے کو اپنے فوت شدہ والد سے محبت ہے اور اب ان کے لیے کچھ کرنا چاہتا ہے۔

سوال

میں آپ کو اپنا یہ سوال بھیج رہا ہوں  اور س میں  اپنے والد مرحوم کے متعلق پریشانی بھی ذکر کر رہا ہوں، میرے والد صاحب کو فوت ہوئے دو سال ہو گئے ہیں وہ حقوق اللہ کی ادائیگی میں کوتاہی کا شکار تھے، مثلاً:

1-  فرض نمازیں پابندی سے ادا نہیں کرتے تھے، کبھی پڑھ لی اور کبھی سستی کی وجہ سے نہ پڑھی، میرے والد نماز کی فرضیت کا انکار نہیں کرتے تھے۔

2- وہ رمضان میں بہت کم روزے رکھتے تھے اور حجت یہ پیش کرتے کہ وہ بیمار ہیں اور انہیں دل کے عارضے کی دوا کھانی ہے، یا وہ بہت کمزور ہو چکے ہیں اب ان میں روزہ رکھنے کی طاقت نہیں ہے، میرے والد سگریٹ نوشی کرتے تھے، اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ وہ روزہ اس لیے نہیں رکھتے تھے کہ وہ سگریٹ کے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔

3- کافی عرصہ پہلے ہمارا ایک جنرل اسٹور تھا، میرے علم کے مطابق  اور جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے انہوں نے کبھی بھی اس دکان میں موجود سامان کی زکاۃ ادا نہیں کی، اس وقت ہماری مالی حالت بھی بہت پتلی تھی، اس دکان سے ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہوا اور پھر ہم نے وہ دکان ہی فروخت کر دی۔

4- بسا اوقات میرے والد کے پاس اتنی رقم جمع ہو جاتی تھی  کہ اس  سے وہ حج کر سکتے تھے؛ لیکن انہوں نے حج نہیں کیا، وہ ہمیشہ یہی کہا کرتے تھے کہ وہ حج کرنے کی تمنا رکھتے ہیں لیکن ان کے پاس استطاعت نہیں؛ کیونکہ انہیں آنکھوں میں شدید مسائل کا سامنا تھا اس کی وجہ سے وہ اژدحام ، دھوپ اور مشقت طلب کام سے پرہیز کرتے تھے، تاہم ان کی وفات کے بعد کچھ لوگوں نے ان کی طرف سے رضاکارانہ طور پر حج بدل کیا ہے، میرے خیال میں وہ تین لوگ تھے اور وہ میرے والد کے رشتہ دار بھی نہیں تھے۔

مجھے میرے والد سے بہت محبت ہے، میرے والد صاحب کے دوست بھی ان سے بہت محبت کرتے تھے، اس لیے میں آپ سے امید کرتا ہوں کہ آپ مجھے ایسے اعمال بتلائیں  جن کے ذریعے میں اپنے والد کے ساتھ اچھا سلوک کر سکوں، مجھے اپنے والد سے بہت محبت ہے اور مجھے ان کے بارے میں عذاب قبر اور قیامت کے دن عذاب کا خدشہ ہے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اگر آپ اپنے والد محترم کے ساتھ ان کی وفات کے بعد خیر خواہی کرنا چاہتے ہیں تو  آپ درج ذیل کام کر کے انہیں فائدہ پہنچا سکتے ہیں:

1-             والد کے لیے سچے دل کے ساتھ دعا، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلَاةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ . رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ
ترجمہ: میرے پروردگار! مجھے نماز قائم کرنے والا بنا اور میری اولاد کو بھی ، ہمارے پروردگار! اور ہماری دعا بھی قبول فرما، ہمارے پروردگار! مجھے اور میرے والدین  اور تمام مومنوں کو قیامت کے دن مغفرت عطا فرما۔ [ إبراهيم:40-41]

اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جب انسان فوت ہو جائے تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے ماسوائے تین چیزوں کے: صدقہ جاریہ، علم جس سے فائدہ اٹھایا جا رہا ہو، نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے) مسلم: (1631)

ایسے ہی سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (بیشک اللہ تعالی ایک آدمی کا درجہ بلند فرما دیتا ہے ، تو وہ آدمی کہتا ہے: یہ درجے کی بلندی میرے لیے کہاں سے؟ تو اللہ تعالی فرماتا ہے: تیری اولاد کی تیرے لیے دعا کی بدولت)
اس حدیث کو طبرانی نے کتاب الدعاء، صفحہ: 375 میں روایت کیا ہے اور ہیثمی نے مجمع الزوائد (10/234) میں اسے بزار کی جانب منسوب کیا ہے، اسی طرح بیہقی نے اسے سنن الکبری : (7/78) میں روایت کیا ہے۔
امام ذہبی اپنی کتاب المہذب: (5/2650) میں کہتے ہیں کہ: اس کی سند قوی ہے۔
اور ہیثمی  کہتے ہیں کہ اس کے تمام راوی صحیح کے راوی ہیں، ماسوائے عاصم بن بہدلہ کے وہ حسن الحدیث ہے۔

2-             اپنے والد کی طرف سے صدقہ خیرات کریں۔

3-             والد صاحب کی طرف سے حج اور عمرہ کریں، اور ان کا ثواب انہیں پہنچائیں، اس امور کی تفصیلات ہماری ویب سائٹ پر پہلے سوال نمبر: (12652) کے جواب میں گزر چکی ہیں۔

4-             والد پر موجود قرضے کی ادائیگی کریں، جیسے کہ جابر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم کے مطابق اپنے والد عبد اللہ بن حرام رضی اللہ عنہما کے قرضے کے ساتھ کیا تھا، یہ واقعہ صحیح بخاری: (2781) میں موجود ہے۔

جبکہ رمضان کے روزے اور زکاۃ کی ادائیگی میں جو کچھ ان سے کمی کوتاہی ہوئی ہے وہ آپ کمی پوری نہیں کر سکتے، چنانچہ اگر کوئی مسلمان روزوں اور زکاۃ کے متعلق عمداً کوتاہی کرے تو وہ لازمی طور پر ان کا خمیازہ بھگتے گا، اور کوئی دوسرا شخص کسی کی طرف سے ان کی ادائیگی نہیں کر سکتا۔

اور یہی حکم نماز کے بارے میں ہے کہ کوئی کسی کی نمازیں نہیں پڑھ سکتا ۔

اللہ تعالی نے مسلمان کے بارے میں بتلا دیا ہے کہ اسے اس کے اعمال کا پورا بدلہ دیا جائے گا، اگر عمل اچھے ہوئے تو اچھائی ملے گی اور اگر عمل برے ہوئے تو بدلہ بھی برا ہی ملے گا، فرمانِ باری تعالی ہے: فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ . وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ
ترجمہ: پس جو شخص ذرہ برابر بھی خیر کا کام کرے گا وہ اسے دیکھ لے گا، اور جو ذرہ برابر بھی برائی کرے گا وہ اسے دیکھ لے گا۔ [الزلزلہ:7-8]

لیکن اگر اللہ تعالی کسی کو اپنی رحمت سے معاف کرنا چاہے تو یہ اللہ تعالی کی مشیئت ہے۔

تاہم زکاۃ کا معاملہ قرضے جیسا ہے، تو زکاۃ کی رقم مستحقین کا حق ہے، تو آپ اپنے والد صاحب کی جانب سے غیر ادا شدہ زکاۃ کا اندازہ لگائیں اور ان کی طرف سے ادا کر دیں، ہمیں امید ہے کہ اس طرح ان پر قدرے نرمی ہو جائے گی۔

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ آپ کو اپنے والد سے محبت کا بہترین صلہ اور جزا عطا فرمائے، اور انہیں معاف فرمائے۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب