الحمد للہ.
" میرے علم کے مطابق اس حدیث کی صحت کے بارے میں اختلاف ہے، اور اگر اسے صحیح مان لیا جائے تو یہ حدیث اس صورت سے متعلق ہو گی جس میں مسجد کے قریبی نمازیوں کو منتشر کرنا لازم آتا ہو، وگرنہ یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ صحابہ کرام نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پیچھے نمازیں پڑھنے کیلیے مسجد نبوی آیا کرتے تھے، بلکہ معاذ رضی اللہ عنہ پہلے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پیچھے عشا ءکی نماز پڑھتے اور پھر اپنے قبیلے میں جا کر انہیں عشا ءکی نماز پڑھاتے ، حالانکہ اس طرح ان کی عشا ءکی نماز مؤخر بھی ہو جاتی تھی۔
لہذا کسی مسجد میں انسان اس لیے جاتا ہے کہ اس کی قراءت بہت اچھی ہے، یا اچھی آواز کی وجہ سے لمبے قیام میں مدد ملتی ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
البتہ اگر ایسے کرنے سے فتنے کا خدشہ ہو یا قریبی امام کی اہانت لازم آتی ہو ،مثال کے طور پر وہ علاقے کی معزز شخصیت ہو اور قریبی مسجد کی بجائے کسی دوسری مسجد میں جانے سے امام کی شان میں کمی آتی ہو تو ہم یہاں کہیں گے اس خرابی سے بچنے کیلیے دور والی مسجد میں نہ جائے" انتہی.