الحمد للہ.
" ڈرائيور كو ميقات پر ركنا چاہيے تھا تاكہ لوگ احرام باندھ ليتے، اور اگر وہ بھول گيا اور اسے ايك سو كلو ميٹر كے بعد ياد آيا تو جيسا كہ سائل كا كہنا كہ اسے واپس ميقات پر آنا چاہيے تھا تا كہ لوگ ميقات سے احرام باندھتے؛ ڈرائيور كو علم تھا كہ لوگ عمرہ يا حج پر جا رہے ہيں.
اگر ڈرائيور واپس نہيں آيا اور لوگوں نے وہيں يعنى ميقات تجاوز كرنے كے سو كيلو ميٹر بعد احرام باندھا تو ہر شخص كو فديہ ميں ايك بكرا ذبح كر كے مكہ كے فقراء و مساكين كو تقسيم كرنا ہوگا؛ كيونكہ انہوں نے حج يا عمرہ كا ايك واجب ترك كيا ہے.
اور اگر يہ لوگ شرعى عدالت ميں جا كر ڈرائيور كے خلاف شكايت كرتے تو عدالت اس ڈرائيور پر سب لوگوں كا فديہ ادا كرنے كا جرمانہ ڈالتى، كيونكہ ڈرائيور كے سبب سے ہى انہيں فديہ دينا پڑا، اور يہ قاضى كى رائے پر منحصر ہے كيونكہ قاضى كے ليے ڈرائيور كو سب لوگوں كا فديہ ادا كرنے كا حكم دينا ممكن ہے، اس ليے كہ ڈرائيور نے ہى كوتاہى كى اور پھر احرام كے ليے ميقات پر واپس جانے كے حق سے بھى انہيں روك ديا " انتہى
فضيلۃ الشيخ محمد ين صاحل العثيمين رحمہ اللہ.