جمعہ 7 جمادی اولی 1446 - 8 نومبر 2024
اردو

حدیث ( سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہيں ) کا معنی

سوال

مجھے پتہ چلا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
( سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہيں ) توکیا اس کا معنی یہ ہے کہ مسافر کا روزہ رکھنا صحیح نہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول :

سوال نمبر ( 20165 ) کے جواب میں یہ بیان کیا جا چکا ہے کہ سفرمیں روزے کی تین حالتیں ہیں :

پہلی حالت :

جب روزہ رکھنے میں مشقت نہ ہو تو روزہ رکھنا افضل ہے ۔

دوسری حالت :

جب روزہ رکھنے میں مسافر پر مشقت ہو تو روزہ نہ رکھنا افضل ہے ۔

تیسری حالت :

جب روزہ سے مسافر کو ضرر ہویا اسے ہلاک ہونے کا خدشہ ہو تو اس حالت میں روزہ رکھنا حرام ہے اورروزہ نہ رکھنا واجب ہوگا ۔

اوراس پر احاديث میں سے دلائل بھی بیان ہوچکے ہیں ۔

دوم :

جس حدیث کی طرف سائل نے اشارہ کیا ہے وہ تیسری حالت پر منطبق ہوتی ہے ، اورجب ہم اس حدیث کےسیاق اوراس کےسبب ورود کودیکھیں تویہی واضح ہوتا ہے ۔

جابر بن عبداللہ رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہيں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفرمیں تھے توایک جگہ پر کچھ لوگوں کی بھیڑ اورایک شخص پر سایہ کیا ہوا دیکھا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم کہنے لگے یہ کیا ہے ؟

تولوگوں نے جواب دیا روزہ دار ہے تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت فرمایا :

سفر میں روزہ رکھنا کوئي نیکی نہیں ۔

صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1946 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1115 )

سندھی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

قولہ ( سفرمیں روزہ رکھنا نیکی نہيں ) یعنی سفرمیں روزہ رکھنا اطاعت اورعبادت میں سے نہيں ۔ اھـ

امام نووی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں :

اس کا معنی یہ ہے کہ : جب تم پر روزہ مشقت بنے اورتم ضرر کا خدشہ محسوس کرو توروزہ رکھنا نیکی نہيں ۔

اورحدیث کا سیاق بھی اسی چيز کا متقاضي ہے ۔۔۔ لھذا یہ حدیث اس شخص کے لیے ہوگي جوروزے کی وجہ سے ضرر اورتکلیف محسوس کرے ۔

اورامام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے بھی یہی معنی سمجھا ہے ، اسی لیے انہوں نے یہ کہتے ہوئے باب باندھا ہے :

باب ہے اس سایہ کیے ہوئے شخص کےبارہ میں جس کے بارہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہيں ۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے اس باب سے یہ اشارہ کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ سفرمیں روزہ رکھنا نیکی نہيں ، اس شخص کومشقت پنچنے کی وجہ سے فرمایا ۔

اورابن قیم رحمہ اللہ تعالی تھذیب السنن میں کہتے ہيں :

اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول :

( سفرمیں روزہ رکھنا کوئي نیکی نہيں ) یہ ایک معین شخص کے بارہ میں کہا گيا ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھا کہ اس پر مشقت کی وجہ سے سایہ کیا گيا ہے تواس وقت یہ فرمایا کہ انسان کو سفرمیں اتنی مشقت نہيں اٹھانی چاہیے کہ اس حد تک پہنچ جائےکوئي نیکی نہيں ، حالانکہ اللہ تعالی نے اسے روزہ چھوڑنے کی رخصت دے رکھی ہے ۔ اھـ

سوم :

اس حدیث کو عموم پر محمول کرنا ممکن نہيں ، کہ کسی بھی سفرمیں روزہ رکھنا نیکی نہيں ہے ، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں روزہ رکھا کرتے تھے ۔

اور اسی لیے امام خطابی رحمہ اللہ تعالی نےکہا ہے :

یہ سب صرف سبب کی وجہ سے کہا گيا ہے جو صرف اس شخص کے بارہ میں ہے جس کی حالت بھی اس شخص کی طرح ہوجائے جس کے بارہ میں یہ کہا گیا کہ سفرمیں روزہ رکھنا کوئي نیکی نہيں ۔

یعنی جب مسافر کو روزہ اس حالت تک اذیت دے تو روزہ رکھنا نیکی نہیں ، جس کی دلیل یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے سال سفرمیں روزہ رکھا تھا ۔ اھـ عون المعبود ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب