الحمد للہ.
سب سے پہلے ہم یہ واضح کرنا چاہیں گے کہ شریعت اسلامیہ نے نیک اور دیندار بیوی تلاش کرنے کی ترغیب دلائی ہے، اسی طرح دیندار اور نیک خاوند تلاش کرنے کی ترغیب بھی دی ہے، ہر دو کے لیے دین سب سے پہلا اور بنیادی ہدف ہے۔ جبکہ خوبصورتی، دولت اور حسب و نسب وغیرہ جیسی دیگر خوبیاں سب کی سب ثانوی حیثیت رکھتی ہیں، یہ خوبیاں غلط اور بذات خود مذموم نہیں ہیں، لیکن دوسری طرف یہ بھی ہے کہ ان کی حیثیت بنیادی نہیں ہے، تاہم یہ اضافی خوبیاں ہیں اگر میسر ہو جائیں تو وارے نیارے ہیں، اور اگر یہ خوبیاں دستیاب نہ ہوں تو صرف دین داری ہی ہر خیر کا باعث ہے۔
کچھ احادیث میں بیوی میں پائی جانے والی ان صفات کا تذکرہ اسی بات پر دلالت کرتا ہے، چنانچہ ایک روایت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : "عرض کیا گیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! کون سی عورت بہترین ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جب خاوند اس کی طرف دیکھے تو اسے خوش کر دے، جب اسے حکم دے تو اس کی اطاعت کرے، اپنی ذات کے متعلق اور خاوند کے مال کے بارے میں ایسا رویہ نہ رکھے جو خاوند کو پسند نہ ہو۔) اس حدیث کو امام احمد: (2/251) نے روایت کیا ہے اور البانیؒ نے اسے سلسلہ صحیحہ (1838) میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔
تو یہی معاملہ خاوند کے بارے میں بھی ہے کہ بنیادی طور پر نیک اور متقی خاوند کی تلاش کی جائے جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمان میں ہے کہ: (جب تمہارے پاس کوئی ایسا لڑکا آئے جس کے دین اور اخلاق کو تم پسند کرو۔۔۔) تو اگر دین کے ساتھ خوبصورتی، دولت اور حسب نسب بھی ہو تو یہ اللہ تعالی کی نعمت ہے۔ بلکہ خود نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی ایسے شخص سے شادی نہ کرنے کا حکم دیا ہے جو مال ضائع کرتا ہو، اور بیوی پر کھلا خرچ نہ کرے، جیسے کہ سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے ، آپ کہتی ہیں کہ: "جب میری عدت پوری ہو گئی ، تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اطلاع دی کہ مجھے معاویہ بن ابو سفیان اور ابو جہم دونوں نے منگنی کا پیغام بھیجا ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ابو جہم تو ہر وقت ڈنڈا اپنے کندھے پر رکھتا ہے، جبکہ معاویہ غریب ہے، اس کے پاس دولت نہیں ہے، تم اسامہ بن زید سے شادی کر لو۔" مسلم: (1480)
علامہ سعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر دینداری کے ساتھ اور کوئی خوبی بھی مل جائے تو یہی کافی ہے، بصورت دیگر دینداری تمام مقصود صفات میں سے بڑی خوبی ہے۔" ختم شد
" بهجة قلوب الأبرار وقرة عيون الأخيار في شرح جوامع الأخبار " (ص/120)
اگر مندرجہ بالا گفتگو واضح ہے تو مذکورہ چیزوں کا جواب بھی ہمیں مل جانا چاہیے، اور ہمیں یہ بھی معلوم ہو جانا چاہیے کہ مال، حسب و نسب، اور خوبصورتی مومن ہوں یا کافر سب لوگوں کے ہاں پسندیدہ خوبیاں ہیں ، صرف انہی چیزوں کی بدولت ایک دوسرے کی طرف راغب ہونا انسانوں اور بشر کے مزاج میں رچا بسا ہوا ہے، چنانچہ شریعت نے اس فطری چیز کے ساتھ تصادم اختیار نہیں کیا۔ بلکہ اگر ان چیزوں کا تذکرہ نہیں کیا تو اس لیے کہ لوگ فطری طور پر ہی ان خوبیوں کو تلاش کرتے ہیں، بلکہ کچھ تو اس میں مبالغہ آرائی سے بھی کام لیتے ہیں، اور اس کے علاوہ کئی اہم چیزوں کی طرف توجہ نہیں دیتے، چنانچہ شریعت نے لوگوں کے لیے ان چیزوں کا تذکرہ فرما دیا جن سے لوگ غافل ہوتے ہیں، یا اس کی طرف توجہ نہیں دے رہے ہوتے؛ حالانکہ شرعی ترازو میں دینداری ہی تمام صفات میں سے اہم ترین ہے۔ پھر انہی ترجیحات کے بدلنے سے نیک اور صاحب ایمان شخص دیگر لوگوں سے ممتاز ہوتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے مشہور حدیث میں فرمایا: (عورت سے شادی چار چیزوں کی وجہ سے کی جاتی ہے: مال و دولت، خاندان، خوبصورتی اور دینداری، تم دین دار کو پا کر کامیاب ہو جاؤ، تمہارے ہاتھ خاک آلود کر دے گی) اس حدیث کو بخاری: (5090) اور مسلم: (1466) نے روایت کیا ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس حدیث کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگوں کی عمومی عادت کا تذکرہ کیا ہے کہ وہ شادی کرتے ہوئے عام طور پر ان چار چیزوں کا خیال کرتے ہیں، یعنی ان کے ہاں دینداری سب سے آخری چیز ہوتی ہے، لیکن رہنمائی طلب کرنے والے شخص تم سب سے پہلے دینداری دیکھو۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم شادی کے لیے ان چاروں چیزوں کو دیکھنے کا حکم دیا ہے۔" ختم شد
" شرح مسلم " (10/51-52)
علامہ نووی رحمہ اللہ ایک اور مقام پر کہتے ہیں:
"اس حدیث کا صحیح مطلب یہ ہے کہ: لوگ عام طور پر عورت میں یہی چار چیزیں دیکھتے ہیں، تو تم دینداری تلاش کر و اور اسے پا کر کامیاب ہو جاؤ، اور ایسی ہی خاتون کو اپنی صحبت میں رکھو۔" ختم شد
" رياض الصالحين " (ص/454)
علامہ قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کسی بھی لڑکی سے شادی کے لیے رغبت کی یہ چار چیزیں ہوتی ہیں، لوگ عورتوں میں یہی تلاش بھی کرتے ہیں، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے معاشرے میں پائی جانے والی چیز کا تذکرہ کیا ہے، یہ نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان چاروں چیزوں کو تلاش کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ان تمام صفات کو یکجا تلاش کر کے نکاح کرنا مباح ہے، یا کسی ایک پر بھی اکتفا جائز ہے، لیکن دینداری سب سے اہم اور بہتر ہے۔" ختم شد
" المفهم لما أشكل من تلخيص صحيح مسلم " (4/215)
شافعی فقہائے کرام میں سے الشیخ سلیمان بن منصور عجیلی الجمل رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کچھ لوگوں نے اس حدیث سے یہ دلیل اخذ کی ہے کہ بیوی خوبصورت بھی ہونی چاہیے، لیکن اس بات کو کشید کرنے پر زرکشی رحمہ اللہ نے اعتراض کیا ہے کہ اس حدیث سے بیوی کے خوبصورت ہونے کی دلیل اخذ کرنا انوکھا استدلال ہے؛ کیونکہ یہاں صرف لوگوں کی عادات ذکر کی گئی ہیں کہ لوگ ایسے کرتے ہیں، تو یہاں ایسا نہیں ہے کہ صرف خوبصورت سے ہی نکاح کا حکم دیا گیا ہو۔ زرکشی رحمہ اللہ کی یہ بات بالکل واضح ہے کہ اس حدیث میں دولت، خوبصورتی اور حسب والی خاتون سے شادی کا حکم نہیں دیا گیا ۔" ختم شد
" فتوحات الوهاب بتوضيح شرح منهج الطلاب المعروف بحاشية الجمل " (4/118)
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (34170 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
کچھ اہل علم اس بات کے قائل ہیں کہ کسی خاتون میں مذکورہ صفات تلاش کرنا شرعی طور پر مرغوب ہے، اور لڑکا ان صفات کی حامل منگیتر تلاش کر سکتا ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ دینداری بنیادی شرط ہو، نیز دیگر کسی اور خوبی سے متصادم نہ ہو، چنانچہ اگر کہیں تصادم آئے تو حتمی طور پر دینداری کو ترجیح دے۔
ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس حدیث سے یہ بھی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اگر کوئی سادات سے تعلق رکھتا ہو تو وہ سادات خاندان میں شادی کرے یہ مستحب عمل ہے، لیکن اگر دینداری کے ساتھ خاندان کا تصادم آئے کہ نسب تو ٹھیک ہو لیکن غیر دیندار ہو تو اس کے مقابلے میں غیر سادات لیکن دیندار کو ترجیح دے۔ اسی طرح دیگر صفات میں دیکھا جائے گا۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمان کے عربی الفاظ: وجمالها سے یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ خوبصورت لڑکی سے شادی مستحب ہے، الا کہ خوبصورتی کا دینداری سے تصادم ہو کہ خوبصورت تو ہو لیکن دیندار نہ ہو، جبکہ دوسری لڑکی خوبصورت تو نہ ہو لیکن دیندار ہو تو دیندار کو ترجیح دے۔ ہاں اگر دینداری میں دونوں ہی یکساں ہوں تو خوبصورت کو ترجیح حاصل ہو گی، یہاں خوبصورتی میں اخلاقی خوبصورتی بھی شامل ہے، اسی طرح اگر کسی کا حق مہر معمولی ہو تو یہ بھی اسی میں شامل ہے۔
حدیث مبارکہ کے عربی الفاظ: فاظفر بذات الدين جبکہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے: فعليك بذات الدين دونوں کا مفہوم یہ ہے کہ: کسی بھی دیندار اور صاحب مروت لڑکے کی نگاہ ہر چیز میں صرف دینداری پر ہونی چاہیے، خاص طور پر ایسی چیز میں جہاں ساتھ اور نبھا طویل المیعاد ہو، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دیندار لڑکی حاصل کرنے کا حکم دیا ہے؛ کیونکہ دین ہی اصل ہدف ہے۔ سنن ابن ماجہ میں سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کی مرفوعا[ضعیف] روایت ہے کہ: (تم عورتوں سے شادی ان کی خوبصورتی کی وجہ سے نہ کرو؛ کیونکہ عین ممکن ہے کہ ان کا حسن انہیں تباہ کر دے، عورتوں سے شادی ان کی دولت کی وجہ سے نہ کرو؛ کیونکہ عین ممکن ہے کہ دولت کی وجہ سے ان کا دماغ خراب ہو جائے، لیکن تم دیندار عورتوں سے شادی کرو، حتی کہ سیاہ فام لیکن دیندار لونڈی تمہارے لیے افضل ہے۔)"مختصراً ختم شد
" فتح الباری " (9/135-136)
شافعی فقہائے کرام کی متعدد فقہی کتب میں اس حدیث کی وجہ سے خوبصورت لڑکی سے شادی کو مستحب قرار دیا گیا ہے۔
اسی طرح حنبلی فقہائے کرام میں سے " شرح منتهى الإرادات " (2/623) میں ہے کہ:
"شادی کے لیے مذکورہ حدیث کی وجہ سے خوبصورت لڑکی کا انتخاب مسنون ہے۔" ختم شد
اس حوالے سے ان شاء اللہ شریعت میں وسعت پائی جاتی ہے ؛ کیونکہ میاں بیوی کے درمیان اصل مقصد دینداری ہے۔ تو دیگر تمام خوبیاں اور صفات تلاش کرنا مذموم نہیں ہے بلکہ اچھی چیز ہے۔
جبکہ خاوند کی تلاش کے لیے اس طرح صفات ذکر نہیں کی گئیں جس طرح بیوی کے لیے بیان کی گئیں ہیں تو اس کی وجہ دونوں میں کسی قسم کی تفریق نہیں ہے، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ عام طور پر مرد ہی اپنے لیے رشتہ تلاش کرتا ہے، اور اپنی مطلوبہ صفات والا رشتہ دیکھتا ہے، جبکہ عورت صرف اس شخص کے بارے میں غور و فکر کرتی ہے جو منگنی کا پیغام لے کر آتا ہے، تو ایسے میں مناسب یہ تھا کہ پہلی حدیث جس میں لڑکی کی صفات کا ذکر کیا گیا ہے ، اس میں لوگوں کے عمومی رسم و رواج کا تذکرہ کیا جائے، نا کہ قلیل اور نادر چیز کا ذکر ہو۔
پھر یہ بھی ہے کہ شریعت میں عام طور پر مردوں کو مخاطب کیا جاتا ہے، اور اصولی علمائے کرام نے یہ بات طے کی ہے کہ تمام کے تمام حکم جن میں مردوں کو مخاطب کیا جاتا ہے ان میں خواتین بھی شامل ہیں، تا آں کہ عورتوں کو اس میں شامل نہ کرنے کی کوئی دلیل یا قرینہ صارفہ موجود ہو، وگرنہ یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ شریعت میں ایک حکم مردوں کے لیے ہو تو دوسرا خواتین کے لیے ہونا ضروری ہے، ویسے بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (یقیناً عورتیں مردوں کی بہنیں ہیں۔ [یعنی: جو حکم مرد کے لیے وہی حکم عورت کے لیے ہو گا۔ مترجم] ) اس حدیث کو ترمذی: (113) وغیرہ نے روایت کیا ہے اور البانیؒ نے اسے صحیح الجامع میں صحیح قرار دیا ہے۔
واللہ اعلم