الحمد للہ.
اگر تو آپ كے خصيہ كا آپريشن كرنا اور اسے كاٹنا بچہ جننے كى قدرت پر اثرانداز نہيں ہوتا كيونكہ دوسرا خصيہ ٹھيك كام كر رہا ہے تو آپ كے ليے اس آپريشن كا اپنے منگيتر كو بتانا ضرورى نہيں؛ كيونكہ عيب كے متعلق بتانے كا قاعدہ اور اصول يہ ہے كہ:
جس سے نكاح كا مقصد اور فائدہ جاتا رہے، اور خدمت و بچہ پيدا كرنے كى استطاعت نہ رہے اس عيب كے متعلق بتانا ضرورى ہے.
ليكن بہتر يہى ہے كہ آپ اس آپريشن كے متعلق اس كو بتا ديں تا كہ بعد ميں كوئى مشكل پيش نہ آئے اور خاوند اسے دھوكہ نہ سمجھ بيٹھے.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" صحيح يہى ہے كہ عيب وہ ہے جس سے نكاح كا مقصد ختم ہو كر رہ جائے، اور بلاشك و شبہ نكاح كے مقاصد ميں فائدہ حاصل كرنا، اور خاوند كى خدمت اور بچہ پيدا كرنا يہ اہم چيز ميں شمار ہوتا ہے.
چنانچہ جب ان مقاصد ميں كوئى چيز مانع ہو تو يہ عيب كہلاتا ہے، اس بنا پر اگر بيوى اپنے خاوند كو بانجھ پائے، يا پھر خاوند اپنى بيوى كو بانجھ پائے تو يہ عيب ہے.
اور اگر بيوى اندھى ہو تو بھى عيب ہے؛ كيونكہ يہ چيز نكاح كے دو مقاصد كو جمع كرنے ميں مانع ہے يعنى خاوند كى خدمت اور فائدہ و نفع حاصل كرنا.
اور اگر بيوى كو بہرہ پائے تو يہ بھى عيب ہے، اور اسى طرح گونگى ہو تو بھى عيب ہے .....
صحيح يہى ہے كہ عيب بےشمار ہيں ليكن محدود ہيں اس ليے ہر وہ چيز جس سے نكاح كا مقصد فوت ہوتا ہو نہ كہ كمال تو وہ عيب كہلاتا ہے، اس سے اختيار حاصل ہوگا چاہے وہ عيب بيوى ميں ہو يا خاوند ميں " انتہى
ديكھيں: الشرح الممتع ( 12 / 220 ).
مزيد آپ سوال نمبر ( 43496 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .