جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

نماز میں حرکت کرنا

سوال

کچھ لوگ نماز کے دوران اپنے کپڑوں سے کھیلتے رہتے ہیں، کچھ ناخن صاف کرنے لگتے ہیں، یا بار بار گھڑی کو دیکھتے ہیں یا اسی طرح کی کوئی اور حرکت کرتے ہیں، یہ عمل عمومی طور پر اس وقت ہوتا ہے جب امام قراءت کر رہا ہو، یہ ساتھ کھڑے نمازی کے لیے بہت زیادہ پریشانی کا باعث بنتا ہے اور نمازی کے لیے نماز کی طرف مکمل توجہ رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ تو نماز میں ایسی حرکت کرنے کا کیا حکم ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

فضیلۃ الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ نماز میں حرکت کے متعلق بنیادی حکم یہی ہے کہ یہ عمل مکروہ ہے، البتہ بقدر ضرورت جائز ہے، تو اس طرح نماز میں حرکت کی پانچ قسمیں بنتی ہیں:

پہلی قسم: واجب حرکت

دوسری قسم: حرام حرکت

تیسری قسم: مکروہ حرکت

چوتھی قسم: مستحب حرکت

پانچویں قسم: مباح حرکت

واجب حرکت: ایسی حرکت ہے جس سے نماز صحیح ہو، مثلاً: سر پر لیے ہوئے رومال میں نجاست نظر آئے تو اس پر لازم ہے کہ اسے زائل کرنے کے لیے حرکت کرے اور اپنے سر سے رومال اتار دے؛ اس کی دلیل یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے کہ آپ کے پاس سیدنا جبریل علیہ السلام نے آ کر خبر دی کہ آپ کی جوتیوں میں نجاست لگی ہوئی ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی نماز کو جاری رکھتے ہوئے اپنے دونوں جوتے اتار دئیے۔ اس واقعہ کو ابو داود: (650) نے روایت کیا ہے اور علامہ البانی نے ارواء الغلیل (284) میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔

اسی طرح اگر کسی نمازی کو کوئی شخص بتلائے کہ اس کا رخ قبلے کی سمت نہیں ہے تو پھر حرکت کر کے نمازی کا قبلہ رخ ہونا ضروری ہے۔

حرام حرکت: وہ حرکت ہے جو بلا ضرورت اور تسلسل کے ساتھ ہو؛ کیونکہ ایسی حرکت سے نماز باطل ہو جاتی ہے، اور جس کام سے نماز باطل ہو تو وہ کام کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ ایسا عمل اللہ تعالی کی آیات کو ہنسی مزاح بنانے کے مترادف ہے۔

مستحب حرکت: ایسی حرکت ہے جو نماز میں کسی مستحب فعل کے لیے کی جائے، مثلاً: صف مکمل یا سیدھی کرنے کے لیے حرکت کرنا، یا اگلی صف میں جگہ بن گئی تو نمازی دوران نماز پچھلی صف سے اگلی صف میں چلا جائے ، یا اپنی ہی صف میں جگہ بنی تو اس خلا کو پر کرنے کے لیے امام کی جانب حرکت کرے، یا اسی طرح کی اور حرکتیں بھی ہیں جن سے نماز میں کوئی مستحب عمل کیا جا سکتا ہے؛ اس حرکت کے مستحب ہونے کی دلیل یہ ہے کہ ایسے اعمال نماز کے کامل ہونے میں معاون ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ جس وقت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ نماز ادا کی تو ابن عباس رضی اللہ عنہما آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بائیں جانب کھڑے ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں ان کے سر سے پکڑ کر اپنے پیچھے سے گزارتے ہوئے دائیں جانب کھڑا کر لیا۔ یہ بات صحیح بخاری اور مسلم میں موجو دہے۔

مباح حرکت: ایسی معمولی حرکت ہے جو کسی حاجت کی وجہ سے ہو یا، یا زیادہ حرکت ہو تو کسی نہایت مجبوری کی وجہ سے ہو۔ معمولی حرکت کی مثال نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا عمل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی نواسی سیدہ امامہ بنت زینب رضی اللہ عنہما کو اٹھا کر نماز پڑھائی، آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس بچی کے نانا تھے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم جب نماز میں کھڑے ہوتے تو نواسی کو اٹھا لیتے تھے اور جب سجدہ کرتے تو زمین پر بٹھا دیتے تھے۔ اس حدیث کو بخاری: (5996) اور مسلم: (543) نے روایت کیا ہے۔

جبکہ زیادہ حرکت کے لیے مثال؛ دوران جنگ نماز ادا کرنے کی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلاةِ الْوُسْطَى وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ* فَإِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالاً أَوْ رُكْبَاناً فَإِذَا أَمِنْتُمْ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَمَا عَلَّمَكُمْ مَا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ 
ترجمہ: نمازوں کی پابندی کرو اور درمیانی نماز کی خصوصی طور پر ، اور اللہ تعالی کے لیے فرمانبردار بن کر کھڑے ہو جاؤ۔ پس اگر تمہیں خوف لاحق ہو تو پیدل چلتے ہوئے یا سوار ہو کر نماز ادا کرو، پس جب تم حالت امن میں ہو جاؤ تو اللہ تعالی کا ایسے ہی ذکر کرو جیسے اس نے تمہیں سکھایا ہے جو کہ تم نہیں جانتے تھے۔[البقرۃ: 238 - 239] تو اس آیت کی روشنی میں اگر کوئی شخص پیدل چلتے ہوئے نماز ادا کرتا ہے تو یہ عملِ کثیر ہے، لیکن چونکہ یہ انتہائی ضرورت کی وجہ سے تھا اس لیے جائز ہو گا اور اس سے نماز باطل نہیں ہو گی۔

مکروہ حرکت: ایسی حرکت ہے جو مذکورہ تمام اقسام سے ہٹ کر ہو، بنیادی طور پر نماز میں حرکت کا حکم یہی ہے۔ چنانچہ نماز میں حرکت کرنے والے لوگوں سے ہم کہیں گے کہ تم نماز میں مکروہ عمل کرتے ہو، جس سے تمہاری نماز کا اجر کم ہوتا ہے، یہ چیز عمومی طور پر دیکھی گئی ہے کہ لوگ اپنی گھڑی، قلم، سر کے رومال، یا ناک، یا ڈاڑھی وغیرہ سے دوران نماز کھیل رہے ہوتے ہیں، تو حرکت کی یہ سب اقسام مکروہ ہیں، الا کہ یہ حرکت بہت زیادہ اور تسلسل کے ساتھ ہو تو پھر حرام ہو گی اور اس سے نماز بھی باطل ہو جائے گی۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ : نماز کو باطل کر دینے والی حرکت کی کوئی تعداد مخصوص نہیں ہے۔ البتہ نماز کو باطل کر دینے والی حرکت وہ ہے جو نماز کے منافی ہو، مثلاً: حرکت کو دیکھنے والا شخص یہ سمجھے کہ یہ بندہ نماز نہیں پڑھ رہا، تو ایسی حرکت سے نماز باطل ہو جاتی ہے، اسی لیے اہل علم نے نماز کو باطل قرار دینے والی حرکت کے لیے عرف کو معیار بنایا ہے، چنانچہ اہل علم کا کہنا ہے کہ: "اگر حرکت کثرت کے ساتھ ہو اور مسلسل ہو تو اس سے نماز باطل ہو جائے گی۔" یعنی اہل علم نے حرکت کی تعداد ذکر نہیں کی۔ جبکہ کچھ اہل علم نے حرکت کی تعداد تین ذکر کی ہے، لیکن اس تعداد کے لیے دلیل چاہیے؛ اس لیے نماز کو باطل کرنے والی حرکت کے لیے مخصوص تعداد یا کیفیت متعین کرنے والے پر دلیل بیان کرنا لازم ہے، بلا دلیل تعداد یا کیفیت کو متعین کرنا اللہ کی شریعت میں من مانی ہو گی۔
مجموع فتاوی: (13/309-311)

اسی طرح شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے ایک شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو نماز میں بہت زیادہ حرکت کرتا تھا کہ کیا اس کی نماز باطل ہو جائے گی؟ اور یہ بھی بتلائیں کہ اس سے بچنے کا طریقہ کار کیا ہے؟

تو شیخ مکرم رحمہ اللہ نے کہا:
"مومن کے لیے نماز کا طریقہ یہ ہے کہ نماز نفل ہو یا فرض اپنی نماز پر مکمل توجہ کرے، قلب و جان کے ذریعے خشوع اپنائے؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ * الَّذِينَ هُمْ فِي صَلاتِهِمْ خَاشِعُون ترجمہ: یقیناً مومن فلاح پا گئے ٭ یہ وہی لوگ ہیں جو اپنی نمازوں میں خشوع اپناتے ہیں۔[المؤمنون: 1-2]
چنانچہ مومن کی ذمہ داری بنتی ہے کہ نماز بھر پور اطمینان سے ادا کرے، اطمینان سے نماز ادا کرنا نماز کا اہم ترین رکن اور فریضہ ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے عدم اطمینان کے ساتھ نماز ادا کرتے ہوئے غلطی کرنے والے کو کہا تھا : (واپس جاؤ اور نماز پڑھو؛ کیونکہ تو نے نماز پڑھی ہی نہیں!) اس شخص نے عدم اطمینان کی غلطی تین بار کی تھی، آخر اس شخص نے کہا: اللہ کے رسول! قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے میں اس سے اچھی نماز ادا نہیں کر سکتا، آپ مجھے نماز سکھا دیجیے، تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے فرمایا: (جب تم نماز کے لیے کھڑے ہونے لگو تو اچھی طرح وضو کرو، پھر قبلہ رخ ہو کر تکبیرِ تحریمہ کہو، اور قرآن کا جو حصہ میسر ہے اسے پڑھو، پھر رکوع کرو یہاں تک کہ تم رکوع کرتے ہوئے اطمینان کر لو، پھر اپنا سر اٹھاؤ یہاں تک کہ تم سیدھے کھڑے ہو جاؤ، پھر سجدہ کرو یہاں تک کہ تم سجدہ کرتے ہوئے اطمینان کر لو، پھر اپنا سر سجدے سے اٹھاؤ یہاں تک کہ تم سیدھے بیٹھ جاؤ اور بیٹھ کر اطمینان کر لو، پھر سجدہ کرو یہاں تک کہ تم سجدے میں اطمینان کر لو، پھر سجدے سے اپنا سر اٹھاؤ یہاں تک کہ تم سیدھے بیٹھ جاؤ، اور پھر یہی اطمینان کا عمل اپنی پوری نماز میں کرو ) متفق علیہ، جبکہ سنن ابو داود کی روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں: (پھر تم ام القرآن [یعنی سورت فاتحہ] پڑھو اور اس کے ساتھ جو اللہ چاہے وہ بھی پڑھو)"

اس صحیح حدیث میں واضح دلیل ہے کہ نماز کی ادائیگی میں اطمینان کرنا نماز کا رکن ، اور نماز کا عظیم فرض ہے، نیز اطمینان کے بغیر ادا کی گئی نماز صحیح نہیں ہے، لہذا اگر کوئی شخص نماز میں ٹھونگیں مارے تو اس کی کوئی نماز نہیں ہے۔ نماز میں خشوع اپنانا نماز کا مغز اور روح ہے، اس لیے مومن کے لیے شرعاً اطمینان کا اہتمام کرنا اور اس کا خیال رکھنا ضروری ہے۔

جبکہ نماز میں اطمینان اور خشوع سے متصادم حرکات کو متعین تعداد کے ساتھ محدود کرتے ہوئے یہ کہنا کہ تین بار حرکت سے اطمینان اور خشوع ختم ہو جائے گا تو ایسی کوئی حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت نہیں ہے، یہ کچھ اہل علم کا ذاتی موقف ہے، اور اس حوالے سے کوئی قابل اعتبار دلیل بھی نہیں ہے۔

تاہم نماز میں فضول حرکت کرنا مکروہ ہے، مثلاً ناک، ڈاڑھی، لباس وغیرہ کو چھیڑتے رہنا وغیرہ تو اگر فضول حرکت نماز میں زیادہ ہو جائے تو اس سے نماز باطل ہو جائے گی، لیکن اگر حرکت عرف کے اعتبار سے معمولی ہو ، یا حرکت ہو تو غیر معمولی لیکن مسلسل نہ ہو تو پھر اس سے نماز باطل نہیں ہو گی۔ تاہم مومن کی ذمہ داری بنتی ہے کہ نماز کے دوران خشوع قائم رکھے، اور فضول حرکتیں تھوڑی یا زیادہ بالکل بھی نہ کرے تا کہ نماز مکمل بھی ہو اور پوری بھی ہو۔

اس بات کی دلیل کہ تھوڑی حرکت اور معمولی کام سے نماز باطل نہیں ہوتی، اسی طرح کوئی کام یا حرکات جو الگ الگ ہوں، مسلسل نہ ہوں ان سے بھی نماز باطل نہیں ہوتی ، اس کی بھی دلیل نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز کے دوران سیدہ عائشہ کے لیے دروازہ کھولا تھا، اس واقعہ کو ابو داود: (922)، نسائی: (3/11) اور ترمذی: (601) نے روایت کیا ہے، نیز اسے البانیؒ نے صحیح ترمذی: (601) میں اسے حسن قرار دیا ہے۔

اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں یہ بھی ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگوں کی جماعت کروائی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی نواسی امامہ کو اٹھایا ہوا تھا، چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم سجدہ کرتے تو انہیں نیچے بیٹھا دیتے اور جب کھڑے ہوتے تو اٹھا لیتے تھے۔
ماخوذ از: فتاوى علماء البلد الحرام: ( 162-164 )

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب