الحمد للہ.
"ایسا حاکم جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے مطابق حکومت نہیں چلاتا اس کی اطاعت ایسی صورت میں واجب ہے جب اللہ تعالی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نافرمانی نہ ہو، نیز کتاب و سنت کے مطابق حکومت نہ چلانے کی وجہ سے اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہونا بھی واجب نہیں، بلکہ اس وقت تک اس کے خلاف بغاوت جائز نہیں جب تک حد کفر تک نہ پہنچ جائے، چنانچہ جب حد کفر تک پہنچ جائے تو اس وقت اسے معزول کرنا واجب ہے، اور مسلمانوں پر اس کی اطاعت کا جواز نہیں رہتا۔
کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کے بغیر کسی اور چیز کے ذریعے زمام حکومت چلانا دو شرطوں کی موجودگی میں کفر ہوتا ہے:
پہلی شرط: کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے احکامات جانتا ہو، چنانچہ اگر کوئی کتاب و سنت کے احکامات سے نابلد ہوتے ہوئے مخالفت کرے تو وہ کافر نہیں ہو گا۔
دوسری شرط: غیر ما انزل اللہ کے مطابق حکومت چلانے کا باعث اس کا یہ نظریہ ہو کہ اس وقت شرعی طریقہ کار وقت کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتا جبکہ دیگر طرزِ حکمرانی شرعی طرزِ حکمرانی سے بہتر ہیں اور اسی میں رعایا کا فائدہ ہے تو دونوں شرطوں کی وجہ سے بغیر ما انزل اللہ کے ذریعے حکومت چلانا دائرہ اسلام سے خارج کرنے والا کفر بن جائے گا؛ اس کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:
وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُوْلَئِكَ هُمْ الْكَافِرُونَ ترجمہ: اور جو اللہ کی نازل کردہ وحی کے مطابق حکومت نہ کریں تو یہی لوگ کافر ہیں۔ [المائدہ: 44]
اس صورت میں ایسے حکمران کی حکومت چلانے کی ذمہ داری کالعدم ہو جائے گی اور لوگوں پر اس کی اطاعت نہیں رہے گی، بلکہ اس کے خلاف کھڑے ہونا اور اسے معزول کرنا ضروری ہو جائے گا۔
لیکن اگر کوئی حکمران ما انزل اللہ کے مطابق حکومت تو نہیں کرتا تاہم وہ یہ سمجھتا ہے کہ اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق ہی حکومت چلانا واجب ہے اور یہی لوگوں کے لئے مفید بھی ہے لیکن پھر بھی خواہش پرستی اور رعایا پر ظلم کے ارادے سے شرعی فیصلے نہیں کرتا تو وہ کافر نہیں ہے، بلکہ وہ فاسق یا ظالم ہے، اس کی حکمرانی باقی ہے، جس کام میں اللہ تعالی اور رسول اللہ کی نافرمانی نہ ہو تو ایسے میں حکمران کی اطاعت واجب ہو گی، ایسے حکمران کے خلاف بغاوت، مسلح مخالفت اور تصادم جائز نہیں ہوگا؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے حکمرانوں کے خلاف بغاوت کرنے سے منع کیا ہے، الّا کہ ہم صریح کفر دیکھیں اور اللہ تعالی کی طرف سے ہمارے پاس اس کے متعلق دلیل بھی ہو۔" ختم شد
"مجموع فتاوى ابن عثیمین" (2/118)
واللہ اعلم