الحمد للہ.
اول:
ہم اللہ سبحانہ و تعالى كا شكر ادا كرتے ہيں كہ اس نے آپ كو اندھيروں سے نكال كر نور كى طرف راہنمائى فرمائى اور آپ كو حق دكھايا، يہ بہت بڑى نعمت ہے، اس ليے آپ اس كا شكر ادا كرنے كى حرص ركھيں، اور اس كا شكر اسى طرح ادا ہو سكتا ہے كہ آپ اہل سنت والجماعت كے مسلك كو تھام كر ركھيں، اور اسى مسلك حقہ كى دعوت بھى ديں اور اس كى تعظيم كريں.
دوم:
عورت كو حق حاصل نہيں كہ اپنى شادى خود ہى كرے بلكہ اس كےليے ضرورى ہے كہ اس كى شادى اس كا ولى كرے، وگرنہ اس كى شادى باطل ہوگى جمہور اہل علم كا مسلك يہى ہے بلكہ اس سلسلہ ميں كسى صحابى سے بھى اختلاف وارد نہيں اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا بھى يہى فرمان ہے.
اگر حال وہى ہے جو آپ نے بيان كيا ہے اور آپ كے گھر والوں ميں كوئى شخص ايسا نہيں جس كا عقيدہ صحيح ہو اور آپ كے خاندان والے ( يعنى شيعہ ) قرآن ميں تحريف، اور صحابہ كرام كى تكفير اور اپنے آئمہ كرام كے معصوم ہونے، اور عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا پر بہتان وغيرہ لگانے كے كفريہ عقائد ركھتے ہيں، اور آپ كو كسى نيك و صالح اہل سنت كا عقيدہ ركھنے والے شخص سے شادى كرنے سے روك رہے ہيں تو اس طرح ان كى ولايت ساقط ہو جاتى ہے؛ كيونكہ ايك اعتبار سے آپ اور ان كا دين عليحدہ ہے، اور دوسرى طرف آپ كو ايسے شخص سے شادى كرنے سے منع كر رہے جو كفؤ اور برابر و مناسب كا رشتہ ہے، اور ان دو سببوں ميں سے صرف ايك سبب ہى ان كى ولايت ساقط كرنے كے ليے كافى ہے.
اس بنا پر؛ آپ كے ليے ان كى رضامندى كے بغير ہى شادى كرنا ممكن ہے، لہذا آپ اپنا معاملہ اور مقدمہ شرعى قاضى كے پاس لے جائيں تا كہ وہ آپ كى شادى كر سكے، اور اگر شرعى قاضى نہ ہو تو پھر آپ كے ملك ميں كوئى عادل مسلمان شخص جو مسلمانوں ميں مقام و مرتبہ ركھتا ہو آپ كا ولى بن كر آپ كى شادى كريگا، يعنى امام مسجد.
اس كى تفصيل ہم سوال نمبر ( 7989 ) كے جواب ميں بيان كر چكے ہيں.
واللہ اعلم .