الحمد للہ.
اول:
اللہ كے بندے آپ نے اپنے ساتھ برا كيا ہے اور اپنى بيوى كے ساتھ بھى برا كيا ہے، اور اس نوجوان كے ساتھ بھى برا كيا جس كى خاص اشياء كا آپ نے تجسس كيا، اور اس كے چيٹ روم ميں گئے.
جناب والا آپ كى بيوى كا كيا قصور كہ آپ نے اس سے اپنى شادى كو ہوا كے گھوڑے پر دوڑا ديا، جب بھى آپ كو آپ كا دل اور خواہش چيٹ روم ميں داخل ہونے كا كہے يا عورتوں سے بات چيت كرنے كا تو اس كى سزا آپ كى بيوى كو ہو كہ اسے طلاق ؟ اللہ كى قسم بہت تعجب كى بات ہے!!
آپ كو تو چاہيے تھا كہ شادى كو آپ اس گندگى سے توبہ كى فرصت اور موقع بناتے، اور اللہ تعالى نے آپ كے ليے جو حلال كيا ہے اسے حرام سے كفائت سمجھتے، اور اسے بچوں كى كھيل نہ بناتے، اللہ ہميں اور آپ كو سيدھى راہ نصيب فرمائے.
حق تو يہ ہے كہ جو نوجوان باتيں كر رہا تھا اور اس نے چيٹ روم بھى كھلا چھوڑ ديا اس نے حرام اور غلط كام كيا، اگر وہ بالفعل ايك اجنبى لڑكى سے باتيں كر رہا تھا؛ ليكن اس كا معنى يہ نہيں كہ تم بھى اس حرام كام ميں اس كے ساتھ شريك ہو جاؤ، اور نہ ہى تمہيں اس كى جاسوسى كرنى چاہيے تھى، نہ تو آپ نے نيكى كا حكم ديا اور نہ ہى برائى سے منع كيا، اور نہ ہى آپ نے اس كام كو ترك كيا جو دوسرا كر رہا تھا.
دوم:
رہا مسئلہ آپ كى قسم كا اگر تو آپ نے طلاق كى قسم اس ليے كھائى تا كہ آپ چيٹ روم ميں داخل ہونے سے اپنے آپ كو روك سكيں، اور اس قسم كے ساتھ اس كام سے دور ہوں اور آپ نے اس سے اپنى بيوى كو طلاق دينے كا قصد نہيں كيا تو آپ كى بيوى كو طلاق نہيں ہوگى بلكہ آپ اپنى قسم كا كفارہ ديں.
قسم كے كفارہ كى مقدار معلوم كرنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 9985 ) اور ( 45676 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
اور اگر آپ نے اپنى قسم سے بيوى كو طلاق دينے كا قصد كيا كہ اگر آپ نے ايسا كيا، تا كہ اس كے برے فعل كى آپ كو سزا ہو، تو يہ ايك طلاق شمار ہوگى.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہ فرماتے ہيں:
طلاق تو حاجت سے ہوتى ہے اور آزادى وہ ہوتى ہے جس سے اللہ كى رضا چاہى جائے "
اسے امام بخارى نے صحيح بخارى ميں بيان كيا ہے.
ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہ نے بيان كيا ہے كہ طلاق تو اس كى واقع ہوتى ہے جس كى غرض طلاق دينے كى ہو؛ اس كى نہيں جو طلاق واقع ہونے كى ناپسند كرتا ہو مثلا طلاق كى قسم اٹھانے والے اور مكرہ يعنى جبر كيے جانے والے كى طرح.
اور عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:
" ہر قسم چاہے وہ كتنى بھى بڑى ہو اس كا كفارہ اللہ كى قسم كا كفارہ ہى ہے "
اور يہ سب قسموں كو حاصل ہے، چاہے وہ طلاق كى قسم ہو يا غلام آزاد كرنے كى يا نذر وغيرہ كى.
اور يہ قول كہ: طلاق كى قسم سے طلاق لازم نہيں ہوتى سلف اور خلف ميں سے اكثر كا يہى مذہب ہے؛ ليكن ان ميں كچھ ايسے بھى ہيں جو كفارہ لازم نہيں كرتے مثلا دواد اور اس كے اصحاب، اور كچھ قسم كا كفارہ لازم كرتے ہيں؛ مثلا طاؤس وغيرہ سلف اور خلف سے " انتہى
مجموع الفتاوى ( 33 / 61 ).
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
ايك شخص كثرت سے سگرٹ نوشى كرتا ہے اور وہ سگرٹ چھوڑنا چاہتا تھا لہذا اس نے اپنے آپ سے كہا: اللہ كى قسم اگر ميں نے سگرٹ نہ چھوڑے تو مجھ پر ميرى بيوى حرام، ليكن وہ سگرٹ نوشى نہ چھوڑ سكا ؟
كميٹى كے علماء كا جواب تھا:
" اگر تو آپ كا اپنى بيوى كو اپنے اوپر حرام كرنے كا مقصد اپنے آپ كو سگرٹ نوشى سے روكنا تھا اور طلاق مقصد نہيں تو اس قسم سے طلاق واقع نہيں ہوگى، بلكہ اس سے قسم كا كفارہ لازم ہوگا، اور اگر آپ كا حرام سے مقصد طلاق تھا تو اگر آپ شراب نوشى كرينگے تو آپ كى بيوى كو ايك طلاق ہو جائيگى اور عدت كے اندر اندر رجوع كر سكتے ہيں اگر تيسرى طلاق نہ ہو تو پھر.
اسى طرح قسم توڑنے كا بھى آپ كو كفارہ ادا كرنا ہوگا اور قسم كا كفارہ يہ ہے كہ: دس مسكينوں كو كھانا ديا جائے، يا پھر دس مسكينوں كو لباس ديا جائے، اور اگر يہ نہ پائے تو تين ايام كے روزے ركھے " انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 20 / 99 - 100 ).
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اگر تو اس شخص كا اپنے قول " مجھ پر طلاق " سے مراد اور مقصد قسم ہو تو يہ قسم ہے اور قسم كے حكم ميں ہوگى اگر وہ قسم توڑتا ہے تو اس پر قسم كا كفارہ ہوگا، اور اگر قسم نہ توڑے تو اس پر كچھ لازم نہيں آئيگا.
اور اگر اس كا مقصد طلاق ہو اور وہ قسم كو توڑ دے تو اس كى بيوى كو طلاق ہو جائيگى " انتہى
ديكھيں: فتاوى نور على الدرب ( 17 ).
مزيد آپ سوال نمبر ( 39941 ) اور ( 132586 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .