ہفتہ 27 جمادی ثانیہ 1446 - 28 دسمبر 2024
اردو

قسم اٹھائى كہ اگر چيٹ روم ميں داخل ہوا تو بيوى كو طلاق ليكن پھر چيٹ روم ميں داخل ہو گيا

138147

تاریخ اشاعت : 15-05-2010

مشاہدات : 4673

سوال

ميں جوان ہوں اور شادى سے قبل انٹرنيٹ پر چيٹ روم ميں لڑكيوں سے گپ شپ لگايا كرتا تھا، جب شادى ہو گئى تو ميں نے قسم اٹھائى كہ اب چيٹ روم ميں عمدا اور قصدا نہيں جاؤنگا الا يہ كہ بھول جاؤں يا غلطى ہو جائے.
اس قسم كے بعد ميں ڈرتا تھا حتى كہ چيٹ روم كو ديكھنے سے بھى خوف آتا، ليكن ميں قسم كے الفاظ بھول چكا ہوں كہ آيا قسم صرف چيٹ روم ميں داخل ہونے پر تھى يا كہ چيٹ كرنے پر، كچھ ايام قبل ميں انٹرنيٹ پر تھا مجھ سے قبل ايك نوجوان وہاں بيٹھا ہوا تھا جو چيٹ پر لڑكى سے بات چيت كر رہا تھا اور اس نے جاتے وقت اپنى اى ميل كھلى ہى رہنے دى تو مجھے خيال آيا كہ ميں اس لڑكى كى تصوير ديكھوں " استغفر اللہ " ليكن ميرے ذہن ميں يہ نہ تھا كہ ميں اس كے ساتھ چيٹ كروں لہذا ميں نے چيٹ روم كھولا جسے نوجوان نے چھوڑا تھا اور اسے ميں نے ديكھا.
اس دن سے آج تك ميں عذاب ميں مبتلا ہوں كہ آيا طلاق واقع ہو گئى ہے يا نہيں ؟
بعض اوقات ميں دل ميں كہتا ہوں تم تو چيٹ روم ميں انٹر ہونے سے ہى خوفزدہ ہو، اور يہ اس بات كى دليل ہے كہ قسم چيٹ روم ميں انٹر ہونے پر تھى، پھر بعد ميں دل ميں كہتا ہوں صرف داخل ہونے كا خوف ہى اس بات كى دليل نہيں كہ قسم چيٹ روم ميں داخل ہونے پر تھى.
اور بعض اوقات دل ميں يہ كہتا ہوں كہ ميں بيوى سے رجوع كر لوں گا اور اپنے دل ميں اسے ايك طلاق شمار كرتا ہوں پھر پلٹ كر كہتا ہوں ميں اسے كيسے ايك طلاق شمار كر سكتا ہوں، ہو سكتا ہے جب قسم كے الفاظ ہى بالضبط ياد نہيں تو يہ طلاق كيسے ہو سكتى ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اللہ كے بندے آپ نے اپنے ساتھ برا كيا ہے اور اپنى بيوى كے ساتھ بھى برا كيا ہے، اور اس نوجوان كے ساتھ بھى برا كيا جس كى خاص اشياء كا آپ نے تجسس كيا، اور اس كے چيٹ روم ميں گئے.

جناب والا آپ كى بيوى كا كيا قصور كہ آپ نے اس سے اپنى شادى كو ہوا كے گھوڑے پر دوڑا ديا، جب بھى آپ كو آپ كا دل اور خواہش چيٹ روم ميں داخل ہونے كا كہے يا عورتوں سے بات چيت كرنے كا تو اس كى سزا آپ كى بيوى كو ہو كہ اسے طلاق ؟ اللہ كى قسم بہت تعجب كى بات ہے!!

آپ كو تو چاہيے تھا كہ شادى كو آپ اس گندگى سے توبہ كى فرصت اور موقع بناتے، اور اللہ تعالى نے آپ كے ليے جو حلال كيا ہے اسے حرام سے كفائت سمجھتے، اور اسے بچوں كى كھيل نہ بناتے، اللہ ہميں اور آپ كو سيدھى راہ نصيب فرمائے.

حق تو يہ ہے كہ جو نوجوان باتيں كر رہا تھا اور اس نے چيٹ روم بھى كھلا چھوڑ ديا اس نے حرام اور غلط كام كيا، اگر وہ بالفعل ايك اجنبى لڑكى سے باتيں كر رہا تھا؛ ليكن اس كا معنى يہ نہيں كہ تم بھى اس حرام كام ميں اس كے ساتھ شريك ہو جاؤ، اور نہ ہى تمہيں اس كى جاسوسى كرنى چاہيے تھى، نہ تو آپ نے نيكى كا حكم ديا اور نہ ہى برائى سے منع كيا، اور نہ ہى آپ نے اس كام كو ترك كيا جو دوسرا كر رہا تھا.

دوم:

رہا مسئلہ آپ كى قسم كا اگر تو آپ نے طلاق كى قسم اس ليے كھائى تا كہ آپ چيٹ روم ميں داخل ہونے سے اپنے آپ كو روك سكيں، اور اس قسم كے ساتھ اس كام سے دور ہوں اور آپ نے اس سے اپنى بيوى كو طلاق دينے كا قصد نہيں كيا تو آپ كى بيوى كو طلاق نہيں ہوگى بلكہ آپ اپنى قسم كا كفارہ ديں.

قسم كے كفارہ كى مقدار معلوم كرنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 9985 ) اور ( 45676 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

اور اگر آپ نے اپنى قسم سے بيوى كو طلاق دينے كا قصد كيا كہ اگر آپ نے ايسا كيا، تا كہ اس كے برے فعل كى آپ كو سزا ہو، تو يہ ايك طلاق شمار ہوگى.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہ فرماتے ہيں:

طلاق تو حاجت سے ہوتى ہے اور آزادى وہ ہوتى ہے جس سے اللہ كى رضا چاہى جائے "

اسے امام بخارى نے صحيح بخارى ميں بيان كيا ہے.

ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہ نے بيان كيا ہے كہ طلاق تو اس كى واقع ہوتى ہے جس كى غرض طلاق دينے كى ہو؛ اس كى نہيں جو طلاق واقع ہونے كى ناپسند كرتا ہو مثلا طلاق كى قسم اٹھانے والے اور مكرہ يعنى جبر كيے جانے والے كى طرح.

اور عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:

" ہر قسم چاہے وہ كتنى بھى بڑى ہو اس كا كفارہ اللہ كى قسم كا كفارہ ہى ہے "

اور يہ سب قسموں كو حاصل ہے، چاہے وہ طلاق كى قسم ہو يا غلام آزاد كرنے كى يا نذر وغيرہ كى.

اور يہ قول كہ: طلاق كى قسم سے طلاق لازم نہيں ہوتى سلف اور خلف ميں سے اكثر كا يہى مذہب ہے؛ ليكن ان ميں كچھ ايسے بھى ہيں جو كفارہ لازم نہيں كرتے مثلا دواد اور اس كے اصحاب، اور كچھ قسم كا كفارہ لازم كرتے ہيں؛ مثلا طاؤس وغيرہ سلف اور خلف سے " انتہى

مجموع الفتاوى ( 33 / 61 ).

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:

ايك شخص كثرت سے سگرٹ نوشى كرتا ہے اور وہ سگرٹ چھوڑنا چاہتا تھا لہذا اس نے اپنے آپ سے كہا: اللہ كى قسم اگر ميں نے سگرٹ نہ چھوڑے تو مجھ پر ميرى بيوى حرام، ليكن وہ سگرٹ نوشى نہ چھوڑ سكا ؟

كميٹى كے علماء كا جواب تھا:

" اگر تو آپ كا اپنى بيوى كو اپنے اوپر حرام كرنے كا مقصد اپنے آپ كو سگرٹ نوشى سے روكنا تھا اور طلاق مقصد نہيں تو اس قسم سے طلاق واقع نہيں ہوگى، بلكہ اس سے قسم كا كفارہ لازم ہوگا، اور اگر آپ كا حرام سے مقصد طلاق تھا تو اگر آپ شراب نوشى كرينگے تو آپ كى بيوى كو ايك طلاق ہو جائيگى اور عدت كے اندر اندر رجوع كر سكتے ہيں اگر تيسرى طلاق نہ ہو تو پھر.

اسى طرح قسم توڑنے كا بھى آپ كو كفارہ ادا كرنا ہوگا اور قسم كا كفارہ يہ ہے كہ: دس مسكينوں كو كھانا ديا جائے، يا پھر دس مسكينوں كو لباس ديا جائے، اور اگر يہ نہ پائے تو تين ايام كے روزے ركھے " انتہى

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 20 / 99 - 100 ).

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اگر تو اس شخص كا اپنے قول " مجھ پر طلاق " سے مراد اور مقصد قسم ہو تو يہ قسم ہے اور قسم كے حكم ميں ہوگى اگر وہ قسم توڑتا ہے تو اس پر قسم كا كفارہ ہوگا، اور اگر قسم نہ توڑے تو اس پر كچھ لازم نہيں آئيگا.

اور اگر اس كا مقصد طلاق ہو اور وہ قسم كو توڑ دے تو اس كى بيوى كو طلاق ہو جائيگى " انتہى

ديكھيں: فتاوى نور على الدرب ( 17 ).

مزيد آپ سوال نمبر ( 39941 ) اور ( 132586 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب