سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

نجس کپڑوں سے اڑنے والی دھول اور غبار کا حکم

169846

تاریخ اشاعت : 08-07-2021

مشاہدات : 2442

سوال

کیا نجس کپڑوں سے اڑنے والا غبار اور رُواں بھی نجس کہلائے گا؟ اور جس چیز پر یہ رواں لگ جائے تو کیا وہ چیز بھی پلید ہو جائے گی؟ براہِ کرم میری رہنمائی فرمائیں۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

انسان کو نجس غبار اور دھول یا نجس کپڑے لگنے سے کچھ نہیں ہوتا، اس کی کچھ وجوہات ہیں:

  1. اڑنے والی دھول اور روئیں میں نجاست کی کوئی بھی صفت نہیں پائی جاتی۔
  2. عام طور پر مذکورہ دھول اور رواں خشک ہوتے ہیں ان میں کسی قسم کی رطوبت نہیں ہوتی، جبکہ نجاست رطوبت کے ساتھ ہی منتقل ہوتی ہے۔
  3. اس قسم کی غبار کے بارے میں اگر فرض کر بھی لیا جائے کہ غبار نجس ہے تو پھر ان میں نجاست کی مقدار انتہائی معمولی ہوتی ہے، چنانچہ اتنی معمولی مقدار کی نجاست سے بچنا عام طور پر بہت مشکل ہوتا ہے۔

چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"شریعت میں ایسی چیزوں سے بچاؤ میں معافی اور نرمی ہوتی ہے جن سے بچنا مشکل ہو جیسے کہ دھواں، اور کسی نجس چیز سے اڑنے والی غبار۔ اسی طرح ایسی مٹی سے بچاؤ بھی معاف ہوتا ہے جس سے بچنا مشکل ہو، جیسے کہ گلی محلوں کی مٹی اور غبار وغیرہ۔" ختم شد
" الفتاوى الكبرى" (5/312) معمولی تصرف کے ساتھ اقتباس مکمل ہوا

علامہ خطیب شربینی ؒ کہتے ہیں:
"معمولی نجس دھوئیں کے بارے میں چھوٹ دی جاتی ہے، اسی طرح روڑی کے غبار کا بھی یہی حکم ہے، ایسے ہی ہواؤں کے ذریعے اڑ کر آنے والے ذرات کے متعلق بھی چھوٹ دی جاتی ہے۔" ختم شد
" مغنی المحتاج " (1/128) معمولی تصرف کے ساتھ اقتباس مکمل ہوا

علامہ مرداویؒ کہتے ہیں:
"نجاست کے معمولی دھوئیں، غبار، اور بھانپ وغیرہ میں چھوٹ دی جاتی ہے، چنانچہ صحیح فقہی موقف کے مطابق اگر اس میں کسی قسم کا نجاست والا وصف واضح نہیں ہوتا تو اس کا یہی حکم ہے ۔۔۔ جبکہ ابو المعالیؒ نے نجس غبار کے بارے میں معمولی کی قید بھی نہیں لگائی انہوں نے مطلق طور پر غبار میں چھوٹ دی ہے؛ کیونکہ غبار سے بچاؤ کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔
علاوہ ازیں "الفروع" میں ہے کہ ابو المعالیؒ کا موقف زیادہ بہتر ہے۔" ختم شد
" الإنصاف " (1/333)

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب