سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

طواف كے چكروں ميں شك اور دونوں اقوال ميں جمع كرنا

سوال

طواف كے چكروں ميں اگر شك ہو جائے تو اس كے حكم كے متعلق ميں نے دو رائے كا مطالعہ كيا ہے:
پہلى رائے يہ ہے كہ اگر كسى شخص كو دوران طواف چكروں ميں شك ہو جائے كہ آيا اس نے چھ يا سات چكر لگائے ہيں تو وہ شك كو ختم كرنے كے ليے ايك اور چكر لگائے تا كہ شك كى بجائے يقينى طور پر سات چكر ہو جائيں ليكن اگر اسے طواف كرنے كے بعد شك ہو تو يہ شك شيطان كى جانب سے ہے اور اس كا طواف صحيح ہوگا اور اس پر كچھ لازم نہيں آتا.
ماخوذ از: فتاوى ابن باز رحمہ اللہ.
دوسرى رائے يہ ہے كہ: امام مالك رحمہ اللہ مروى ہے كہ اگر كوئى شخص بيت اللہ كا طواف كرے اور طواف كے بعد مقام ابراہيم پر دو ركعت ادا كرنے جائے اور اسے شك پيدا ہو تو وہ واپس جا كر جتنے چكروں ميں شك ہوا ہے وہ پورے كرے، اور پھر جا كر دوبارہ دو ركعت ادا كرے اور پہلى دو ركعت معتبر نہيں ہونگى.
كيونكہ طواف كى ركعتيں تو طواف مكمل ہونے كے بعد ہى كفائت كرتى ہيں.
موطا امام مالك حديث نمبر ( 266 ).
برائے مہربانى يہ بتائيں كہ ان دونوں اقوال ميں جمع كيسے كيا جائے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

شك دو حالتوں سے خالى نہيں ہوگا:

پہلى حالت:

شك عبادت كے درميان پيدا ہو تو اس حالت ميں كم از كم پر بنا كرتے ہوئے باقى كو مكمل كيا جائيگا، مثلا اگر كسى شخص كو دوران طواف شك ہو كہ آيا اس نے پانچ يا چھ چكر لگائے ہيں تو كم يعنى پانچ پر بنا كى جائيگى كيونكہ پانچ چكرتو يقينى ہيں اور چھٹے ميں شك ہے.

اس كى دليل نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ فرمان ہے كہ:

" جب تم ميں سے كسى كو نماز ميں شكہ ہو جائے اور اسے پتہ نہ چلے كہ كتنى نماز كى ہے آيا اس نے تين ركعت ادا كى ہيں يا چار ركعت تو وہ شك كو ختم كر كے يقين پر بنا كرے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 888 ).

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اور اگر طواف كے چكروں كى تعداد ميں شك ہو جائے تو يقين پر بنا كى جائے گى.

ابن منذر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" ہم نےجن اہل علم سے علم حاصل كيا ہے ان سب كا اس پر اتفاق ہے، اور اس ليے بھى كہ يہ عبادت ہے جب اس ميں شك ہو جائے تو نماز كى طرح اس ميں بھى يقين پر بنا كى جائيگى " انتہى

ديكھيں: المغنى ( 3 / 187 ).

دوسرى حالت:

عبادت كے بعد شك پيدا ہو تو صحيح قول كے مطابق اس كى طرف التفات نہيں كيا جائيگا، كيونكہ اس ميں عبادت نقص سے سليم ہے، اور اس ليے بھى كہ وہ اپنے ليے وسوسہ كا دروازہ نہ كھولے.

الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:

" ليكن جب طواف كے بعد شك پيدا ہو تو مالكيہ كے سوا جمہور علماء كے ہاں اس كى طرف التفات نہيں كيا جائيگا، اور احناف نے شك كى عبارت كا اطلاق كيا ہے ... انتہى

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 29 / 125 ).

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" عبادت ختم ہونے كے بعد شك معتبر نہيں، اس كى مثال يہ ہے كہ: اگر طواف كے چكروں ميں كسى كو شك ہو جائے كہ آيا اس نےپانچ يا چھ چكر لگائے ہيں تو ہم كہيں گے اگر اسے دوران طواف ہى شك ہوا ہے تو جس ميں اسے شك ہے وہ پورا كرے اور معاملہ ختم ہو جائيگا.

اور اگر اسے طواف ختم كرنے كے بعد شك پيدا ہوا اور وہ كہے كہ: اللہ كى قسم مجھے علم نہيں ميں نے چھ چكر لگائے يا سات ؟

اس شك كا كوئى اعتبار نہيں، بلكہ يہ شك بيكار ہے اسے سات چكر شمار كريگا.

انسان كے ليے يہ قاعدہ اور اصول مفيد ہے كہ اگر اسے شكوك ميں كثرت ہو تو وہ ان شكوك كى طرف التفات مت كرے، اور اگر عبادت ختم كرنے كے بعد اسے شك پيدا ہو تو بھى اس شك كى طرف كوئى دھيان نہ دے، مگر يہ كہ اسے يقين ہو جائے، اور جب يقين ہو تو پھر نقص كو پورا كرنا واجب ہے " انتہى

ماخوذ از: فتاوى نور على الدرب.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب