سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

خلوت كے بعد اور رخصتى سے قبل طلاق دينے كى صورت ميں مہر اور تحفہ جات كا حكم

181084

تاریخ اشاعت : 09-03-2013

مشاہدات : 4342

سوال

ميں جوان ہوں اور ميرا ايك لڑكى سے نكاح ہوا اور عدالت ميں لكھا جا چكا ہے، ليكن كچھ عرصہ بعد ميں نے محسوس كيا كہ ہم اكٹھے زندگى بسر نہيں كر سكتے، اس ليے اس سے عليحدگى كا فيصلہ كيا، يہ علم ميں رہے كہ ابھى ہمارى رخصتى نہيں ہوئى تھى، ليكن كئى ايك بار ہم نے اكيلے ميں خلوت ضرور كى تھى.
سوال يہ ہے كہ خاوند نے بيوى كو جو سونا اور تحفے تحائف اور مہر معجل اور غير معجل وغيرہ كا حكم كيا ہو گا اسے كيا لينے كا حق ہے اور كيا نہيں لے گى ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اگر آدمى نے بيوى كو دخول و رخصتى سے قبل طلاق دے دى اور وہ اس سے خلوت كر چكا ہو، يعنى وہ دونوں ہى تھے اور انہيں كوئى مرد يا عورت يا تميز كرنے والا بچہ نہيں ديكھ رہا تھا تو بيوى كو پورا مہر دينا لازم ہے، چاہے وہ معجل ہو يا غير معجل، جمہور فقھاء كا مسلك يہى ہے، اور امام طحاوى نے خلفاء راشدين وغيرہ صحابہ كا اس پر اجماع بھى نقل كيا ہے.

ابن قدامہ رحمہ اللہ " المغنى " ميں رقمطراز ہيں:

" اس كا اجمالى بيان يہ ہے كہ: اگر عقد صحيح كے بعد مرد اپنى بيوى سے خلوت كر لے تو بيوى كو پورا مہر دينا ٹھرے گا، اور بيوى عدت بھى گزارےگى، چاہے وطئ نہ بھى كى ہو، خلفاء راشدين اور زيد اور ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہم سے يہى مروى ہے.

اور على بن حسين اور عروۃ اور عطاء اور زہرى، اوزاعى اور اسحاق اور اصحاب الرائے كا بھى يہى قول ہے، اور امام شافعى كا قديم قول بھى يہى ہے.

قاضى شريح، شعبى، طاؤوس، ابن سيرين، اور امام شافعى كا جديد قول يہى ہے كہ وطئ كى صورت ميں ہى عورت كے ليے مہر لازم ٹھرےگا، ابن عباس اور ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہم سے بھى يہى بيان كيا جاتا ہے...

ہمارى دليل اجماع صحابہ ہے، امام احمد رحمہ اللہ اور اثرم نے اپنى سند كے ساتھ زرارۃ بن اوفى سے بيان كيا ہے كہ:

" خلفاء راشدين كا فيصلہ تھا كہ: جس نے دروازہ بند كر ليا اور پردہ گرا ليا تو مہر واجب ہو جائيگا، اور عدت بھى واجب ہوگى.

اور اثرم نے احنف سے يہ بھى روايت كيا ہے: عمر اور على اور سعدي بن مسيب اور زيد بن ثابت كا قول ہے كہ: اس عورت پر عدت ہوگى اور اسے پورا مہر ملےگا.

يہ فيصلے مشہور ہے، اور صحابہ كے دور ميں اس كى كسى نے بھى مخالفت نہيں كى، اس طرح يہ اجماع ٹھرا.

اور ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے جو لوگوں نے بيان كيا ہے وہ صحيح نہيں ہے " انتہى

ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 7 / 191 ).

مزيد آپ الموسوعۃ الفقھيۃ ( 19 / 272 ) كا بھى مطالعہ كريں.

آپ نے جو اپنى منكوحہ كو تحفے اور ہديے ديے ہيں ان ميں آپ كا كوئى حق نہيں؛ كيونكہ ہديہ اور تحفہ واپس لينا حرام ہے، اور پھر طلاق تو آپ نے دى ہے، بيوى نے تو طلب نہيں كى.

ليكن بيوى نے جو تحفے اور ہديے آپ كو پيش كيے ہيں وہ انہيں واپس لينے كا مطالبہ كرنے كا حق ركھتى ہے؛ كيونكہ اس نے تو يہ نكاح باقى ركھنے كى اميد سے پيش كيے ہيں، اور اگر آپ نے اسے طلاق دے دى ہے تو اسے واپس لينے كا حق ہے.

مزيد آپ سوال نمبر ( 150970 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب