جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

ایک خاتون کو روزے کی حالت میں قے آ گئی، اور پھر اس روزے کی قضا دینے کے دوران معلوم ہوا کہ اس کا وہ روزہ صحیح تھا، تو کیا یہ روزہ پورا کرے یا چھوڑ دے؟

192316

تاریخ اشاعت : 18-05-2016

مشاہدات : 17349

سوال

سوال: میں یہ سمجھتی تھی کہ رمضان کے جن دنوں میں مجھے قے آتی تھی ان روزوں کی قضا میرے ذمے ہے، پھر قضا دیتے ہوئے بھی مجھے قے آگئی کہ معدے سے پانی منہ کے راستے باہر آ گیا، پھر میں نے اسی دن روزے کی حالت میں آپ کی ویب سائٹ پر پڑھا کہ میرے ذمے قضا ہے ہی نہیں، تو کیا میرے لیے روزہ ختم کرنا جائز ہے؟ یا اپنی نیت کے مطابق روزہ پورا کروں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اگر کسی شخص کو روزے کی حالت میں خود بخود قے آ جائے ، تو اس کا روزہ صحیح ہے قے سے روزہ نہیں ٹوٹتا، اس کی دلیل حدیث مبارکہ میں ہے کہ ترمذی: (720) ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم  نے فرمایا: (جس شخص کو خود بخود قے آ جائے تو اس پر قضا نہیں ہے، لیکن جو عمداً قے کرے وہ قضا دے)
اس روایت کو البانی نے "صحیح ترمذی" میں صحیح قرار دیا ہے۔

نیز ہم نے یہ حکم پہلے بھی فتوی نمبر: (38579) میں واضح کر دیا ہے۔

آپ نے بتلایا کہ آپ نے ان دنوں کی قضا دینا شروع کر دی تھی کیونکہ آپ کو یہ علم نہیں تھا کہ آپ کے روزے صحیح ہیں اور آپ کے ذمہ قضا نہیں ہے، اس بارے میں علمائے کرام کا راجح موقف یہی ہے کہ  اگر کوئی شخص کسی عبادت کو اس نظریے سے شروع کرتا ہے کہ یہ اس کے ذمہ واجب ہے لیکن بعد میں اسے علم ہوتا ہے کہ یہ عبادت اس کے ذمہ واجب نہیں تھی: تو اسے یہ عبادت مکمل کرنے یا درمیان میں چھوڑنے کا اختیار حاصل ہو گا، البتہ عبادت مکمل کرنا افضل ہے۔

تاہم حنفی فقہائے کرام میں سے صرف زفر اس بات کے قائل ہیں کہ اگر اس نے قضا کا روزہ درمیان میں چھوڑا تو اسے دوبارہ رکھنا پڑے گا، چنانچہ  فقہ حنفی کی کتاب: " بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع " (2 / 102) میں ہے کہ:
"ہمارے فقہائے کرام کا ایسے روزے کے بارے میں اختلاف ہے جس کے واجب ہونے میں شک ہو اور اسے توڑ دیا جائے، مثال کے طور پر: نماز یا روزہ یہ سمجھ کر شروع کر لے کہ یہ اس پر واجب ہے، لیکن اسے بعد میں علم ہو کہ یہ نماز یا روزہ اس پر واجب نہیں ہے، چنانچہ وہ روزہ جان بوجھ کر توڑ لیتا ہے تو اس کا حکم کیا ہوگا؟
ہمارے تینوں فقہائے کرام کہتے ہیں کہ: "ان پر قضا نہیں ہو گی، تاہم افضل یہی ہے کہ وہ روزہ مت توڑے بلکہ اسے پورا کر لے۔

لیکن زفر کہتے ہیں کہ: اس پر قضا لازمی ہوگی"انتہی

اسی طرح ایک اور فقہ حنفی کی کتاب: " الجوهرة النيرة على مختصر القدوري " (1 / 70) میں ہے کہ: "اگر کوئی شخص نماز یا روزہ یہ سمجھ کر شروع کرتا ہے کہ وہ اس کے ذمہ ہے، لیکن بعد میں علم ہوتا ہے کہ یہ نماز یا روزہ اس کے ذمہ نہیں تھی ، چنانچہ وہ درمیان میں ہی اسے چھوڑ دیتا ہے تو ہمارے ہاں  اس کی قضا نہیں دینی پڑے گی، البتہ زفر کے ہاں قضا دینا ہوگی۔

اسی طرح اگر کوئی شخص نمازِ ظہر شروع کرے ، اور کوئی دوسرا شخص اسے نفلوں کی نیت سے اپنا امام بنا لے پھر پہلے شخص  کو یاد آئے کہ اس نے نمازِ تو ظہر تو پڑھ لی تھی، چنانچہ وہ نماز درمیان میں ہی چھوڑ دیتا ہے تو اس پر کوئی قضا نہیں ہے، اور نہ ہی اس کی اقتدا کرنے والے پر قضا ہے" انتہی

یہاں سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ سائلہ کو یہ روزہ مکمل کرنے یا درمیان میں چھوڑنے کا اختیار ہے؛ اگرچہ افضل یہی ہے کہ روزہ مکمل کر لے۔

واضح رہے کہ اگر روزہ مکمل کرے تو پھر نفل روزے کی نیت سے مکمل کرے۔

چنانچہ " كشف الأسرار شرح أصول البزدوي " (2 / 312) میں ہے کہ:
"اگر کوئی شخص یہ سمجھ کر نماز یا روزہ شروع کر دے کہ یہ اس کے ذمہ ہے ، لیکن بعد میں علم ہو کہ یہ نماز یا روزہ اس کے ذمہ تھا ہی نہیں، تو سب کے نزدیک اس شخص کی عبادت نفل میں تبدیل ہو جائے گی۔
اور اگر وہ درمیان میں اسے چھوڑ دے تو اس پر قضا واجب نہیں ہو گی؛ کیونکہ وہ ابتدا سے ہی اس عبادت کو کرنے یا نہ کرنے میں مختار تھا" انتہی

زفر رحمہ اللہ کا یہ کہنا کہ ایسے شخص پر نماز یا روزہ مکمل کرنا ضروری ہے ، مالکی فقہ میں بھی یہی بات ہے، ان کے ہاں جان بوجھ کر نماز یا روزہ توڑنے کی صورت میں قضا واجب ہونے کے متعلق دو قول ہیں، البتہ اگر بھول کر نماز یا روزہ توڑ دے تو اس میں سب کے ہاں قضا نہیں ہو گی۔

مزید کیلیے دیکھیں: "مواهب الجليل ، وحاشيته " (2/262) ، "منح الجليل" (2/153)

معدے سے خوراک کی نالی یا منہ تک سائل نکلنے کے متعلق یہ ہے کہ اسے عربی میں "قلس" کہتے ہیں اور یہ قے سے پہلے نکلنے والے کچے پانی کو کہتے ہیں، اس کا تفصیلی حکم فتوی نمبر: (40696) میں گزر چکا ہے۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب