الحمد للہ.
زکاۃ کے مستحق رشتہ داروں کو زکاۃ دینا جائز ہے، بلکہ مستحق رشتہ
داروں کو زکاۃ دینا غیروں کو زکاۃ دینے سے افضل ہے، کیونکہ رشتہ دار کو دیں گے تو
یہ زکاۃ کیساتھ ساتھ صلہ رحمی بھی ہوگی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (کسی
مسکین پر صدقہ کرنا صرف صدقہ ہی ہے، جبکہ کسی رشتہ دار غریب پر صدقہ کرنا ، صلہ
رحمی بھی ہے اور صدقہ بھی ہے)
نسائی: (2581) ترمذی: (658) البانی رحمہ اللہ نے اسے
"
صحیح سنن نسائی" ( 2420 ) میں صحیح قرار دیا ہے۔
لیکن اس کیلئے دو شرائط ہیں:
1-
رشتہ دار زکاۃ کا مستحق ہو یعنی فقراء یا مساکین میں اس کا شمار ہو، اگرچہ صاحب
ملازمت ہی کیوں نہ ہو اگر اس کی ضروریات پوری نہیں ہوتیں تو وہ مساکین میں شامل ہے۔
نیز یونیورسٹی کے قریب یا دور ہونے کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہے، بلکہ یہاں
انسان کے غریب یا مسکین ہونے کا اعتبار ہے۔
2- جس رشتہ دار کو زکاۃ دینا چاہتے ہیں ان کا شمار ان لوگوں میں نہ ہو جن کا خرچہ زکاۃ ادا کرنے والے کے ذمہ بنتا ہے، چنانچہ اگر ان کا خرچہ اس کے ذمہ بنتا ہے تو پھر انہیں زکاۃ ادا نہیں کر سکتا۔
امام شافعی رحمہ اللہ "الأم" (2/87) میں کہتے ہیں:
"اپنے مال کی زکاۃ میں سے والدین، اور دادا ، دادی کو نہیں دے سکتا" انتہی
ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (2/509) میں کہتے ہیں:
"فرض زکاۃ میں سے والدین اور اپنے آباؤ اجداد کو نہیں دے سکتا، اسی طرح اپنی
اولاد اور نسل کو بھی زکاۃ نہیں دے سکتا"
چنانچہ اگر آپ کے رشتہ دار پر مذکورہ دونوں شرائط پوری ہوتی ہیں تو آپ اپنی زکاۃ اس کی ضروریات پوری کرنے کیلئے اسے دے سکتے ہیں، اور تعلیم مکمل کرنا بھی ضرورت ہے، شرط یہ ہے کہ تعلیم دین و دنیا ہر اعتبار سے مفید ہو۔
چنانچہ مرداوی رحمہ اللہ "الإنصاف" (3/218) میں کہتے ہیں:
"شیخ تقی الدین نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ : "کتابیں خریدنے کیلئے زکاۃ وصول کرنا
جائز ہے، بشرطیکہ کہ یہ کتب ایسے علم پر مشتمل ہوں جن سے دینی اور دنیاوی فائدہ
حاصل ہو" انتہی ، اور ان کا یہ موقف درست ہے"
واللہ اعلم.