الحمد للہ.
اگر میت بیٹی، دو بھتیجے اور دو بھتیجیاں چھوڑ کر فوت ہو تو اس کی وراثت درج ذیل طریقے سے تقسیم ہو گی:
بیٹی کو آدھا حصہ ملے گا، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ
ترجمہ: اور اگر بیٹی ایک ہو تو اس کے لیے آدھی وراثت ہے۔[النساء: 11]
اور بقیہ سگے بھائی کے بیٹوں کو ملے گا؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (وراثت کے فرض حصص اصحاب الفروض کو دے دو، اور جو باقی بچ جائے تو وہ قریب ترین مرد کو ملے گا۔) اس حدیث کو امام بخاری: (6732) اور مسلم : (1615) نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے۔
جبکہ بھتیجیوں کو کچھ نہیں ملے گا، کیونکہ بھتیجیاں ذو الارحام میں شمار ہوتی ہیں۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
ایک آدمی فوت ہو گیا، اس کی بیوی اور بچے نہیں تھے، تاہم اس کے بھتیجے تھے میت کا بھائی فوت ہو چکا تھا، تو کیا فوت شدہ بھائی کی اولاد اپنے چچا کی وراثت میں سے حقدار ہیں؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"اگر حقیقت ایسی ہی ہے جیسے سوال میں ذکر کی گئی ہے تو پھر ساری کی ساری وراثت سگے بھائی کے لڑکوں کو مل جائے گی، لڑکیوں کو نہیں ملے گی، اس پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے؛ کیونکہ فرمانِ نبوی ہے: (وراثت کے فرض حصص اصحاب الفروض کو دے دو، اور جو باقی بچ جائے تو وہ قریب ترین مرد کو ملے گا۔) اس حدیث کے صحیح ہونے پر سب کا اتفاق ہے؛ بھائی کی بیٹیاں یعنی بھتیجیاں اصحاب الفروض اور عصبہ میں شمار نہیں ہوتیں بلکہ یہ ذو الارحام میں آتی ہیں۔" ختم شد
" فتاوى نور على الدرب "
واللہ اعلم