الحمد للہ.
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (کمزور مومن سے طاقت ور مومن اللہ تعالی کے ہاں بہتر اور محبوب ہے، اور سب اہل ایمان میں خیر ہے۔) صحیح مسلم: (2664)
حدیث میں مذکور طاقت میں ایمانی اور جسمانی ہر طرح کی قوت شامل ہے، جیسے کہ ہم اس کی تفصیلات سوال نمبر: (10238 ) میں بیان کر چکے ہیں۔
اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ اللَّهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوتَ مَلِكًا قَالُوا أَنَّى يَكُونُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ أَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ قَالَ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ وَاللَّهُ يُؤْتِي مُلْكَهُ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ
ترجمہ: ان کے نبی نے ان سے کہا کہ : "اللہ نے تمہارے لیے طالوت کو بادشاہ مقرر کیا ہے۔" وہ کہنے لگے : "بھلا ہم پر حکومت کا حقدار وہ کیسے بن گیا ؟ اس سے زیادہ تو ہم خود حکومت کے حقدار ہیں اور اس کے پاس تو کچھ مال و دولت بھی نہیں۔" نبی نے کہا : "اللہ نے تم پر حکومت کے لیے اسے ہی منتخب کیا ہے۔ اور ذہنی اور جسمانی اہلیتیں اسے تم سے زیادہ دی ہیں اور اللہ جسے چاہے اپنی حکومت دے دے وہ بڑی وسعت والا اور جاننے والا ہے۔" [البقرۃ: 247]
"فرمانِ باری تعالی: وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ کا مطلب یہ ہے کہ: اللہ تعالی نے طالوت کو تم پر علم اور جسامت میں فوقیت دی ہے، یعنی اس کی رائے بڑی ٹھوس ہوتی ہے اور جسمانی طور پر بھی وہ بہت مضبوط ہے اور انہی دونوں کی بدولت بادشاہت کے امور اچھے طریقے سے سر انجام ہوتے ہیں؛ کیونکہ جب بادشاہ کی رائے بھی ٹھوس ہو اور اپنی درست رائے کو صحیح انداز سے لاگو کرنے کی بھی صلاحیت رکھتا ہو تو یہ درجۂ کمال ہے، اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک چیز بھی نہ رہے تو معاملہ دگر گوں ہو جائے گا۔ لہذا اگر کوئی شخص جسمانی طور پر تو بڑا مضبوط ہو لیکن قوت فیصلہ نہ ہو تو اس سے حکومت میں رخنہ پیدا ہو جائے گا اور قانون کی بالا دستی قائم نہیں رہے گی ، بلکہ اپنی قوت کا استعمال حکمت کے بغیر کرے گا، اور اگر کوئی شخص صاحب علم تو ہے لیکن وہ اپنے علم کی روشنی میں کیے گئے فیصلے پر عمل درآمد نہیں کروا سکتا تو اسے اپنی قوت فیصلہ کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔" ختم شد
"تفسیر سعدی" (ص 107)
انسان جسمانی طور پر صحیح سلامت اور قوت والا ہو تو اسی جسمانی طاقت کے بل بوتے پر اسے نماز، روزہ ، حج، اور جہاد وغیرہ جسمانی عبادات کرنے کی صلاحیت حاصل ہوتی ہے۔ جبکہ انسان کمزور ہو یا کسی بیماری میں مبتلا ہو تو بہت سے عبادات میں تعطل کا شکار ہو جاتا ہے، جیسے کہ سنن ابو داود: (3107) میں ابن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جب کوئی آدمی کسی مریض کی عیادت کے لیے جائے تو وہ کہے: اَللَّهُمَّ اشْفِ عَبْدَكَ يَنْكَأُ لَكَ عَدُوًّا، أَوْ يَمْشِي لَكَ إِلَى صَلَاةٍ ترجمہ: یا اللہ! اپنے بندے کو شفا یاب فرما، تیرے دشمن کو زخمی کرے گا یا تیرے لیے نماز ادا کرنے کے لیے چل کر جائے گا۔) اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے سلسلہ صحیحہ: (1365) میں حسن قرار دیا ہے۔
بدن کو مضبوط بنانے والے مختلف کھیل اور جسمانی ورزش کرتے ہوئے کچھ آداب ملحوظ خاطر رکھنے چاہییں، جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں:
-ثواب کی امید رکھیں؛ آپ بدن مضبوط بنانے کے لیے یہ نیت رکھیں کہ مضبوط بدن کے ساتھ عبادات کریں گے، اور مظلوم کا ساتھ دیں گے۔
-ورزش میں کوئی شرعی مخالفت نہ پائی جائے، مثلاً: گیم میں شریک دونوں افراد ایک دوسرے کے سامنے جھکیں، نہ ہی چہرے پر ماریں، ستر برہنہ نہ کریں، گیم میں جوا نہ لگائیں اور اسی طرح کی دیگر شرعی قباحتیں گیم میں نہیں ہونی چاہییں۔
-کھیل اللہ تعالی کی اطاعت، عبادت اور والدین کی خدمت جیسی دیگر اہم اور ضروری چیزوں میں رکاوٹ نہ بنیں۔
-اس میں بہت زیادہ پیسہ خرچ نہ ہو کہ دولت کے گلچھرے اڑا دے، کھیل کوئی بھی ہو ہر حال میں میانہ روی پر مبنی ہونا چاہیے۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (20198 ) اور (218489 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
ہمیں احادیث میں ایسی کوئی بات علم نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم آج کل کی معروف ورزشیں کرتے ہوں؛ کیونکہ اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر ہر قسم کی نعمت مکمل فرمائی تھی، اور آپ کو مکمل جسمانی اور ایمانی قوت عطا کی تھی۔
اس حوالے سے ہمیں احادیث مبارکہ میں جن چیزوں کا ذکر ملتا ہے وہ ذیل میں ہیں:
1-نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے رکانہ رضی اللہ عنہ سے ان کے اسلام قبول کرنے سے پہلے کشتی کی تھی اور انہیں چت کر دیا تھا، جیسے کہ سنن ابو داود: (4078) میں ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے رکانہ سے کشتی کی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں پچھاڑ دیا۔
اس حدیث کو البانیؒ نے ارواء الغلیل (5/329) میں حسن قرار دیا ہے۔
2-آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی اہلیہ محترمہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ دوڑ لگائی، جیسے کہ سنن ابو داود: (2578) اور مسند احمد: (26277) میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے ، آپ کہتی ہیں کہ: (میں ایک بار آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ ایک سفر میں گئی اور میں ابھی دوشیزہ ہی تھی ابھی مجھ پر گوشت نہیں چڑھا تھا اور نہ ہی میں موٹی ہوئی تھی، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگوں سے کہا: (چلو بھئی تم آگے چلو) تو لوگ آگے چلے گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے کہا: (آؤ، میں تمہارے ساتھ دوڑ لگاتا ہوں) تو میں نے آپ کے ساتھ دوڑ کا مقابلہ کیا اور میں دوڑ میں جیت گئی، اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے خاموشی اختیار کی۔ پھر جب میرا جسم بھاری بھرکم ہو گیا اور جسم پر گوشت چڑھ گیا اور مجھے یہ واقعہ بھی بھول چکا تھا پھر میں آپ کے ہمراہ ایک سفر میں گئی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگوں سے کہا: (چلو بھئی تم آگے چلو) تو لوگ آگے چلے گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے کہا: (آؤ، میں تمہارے ساتھ دوڑ لگاتا ہوں) تو میں نے آپ کے ساتھ دوڑ کا مقابلہ کیا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم مجھ سے دوڑ جیت گئے اور پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم مسکرانے لگے، اور آپ فرما رہے تھے: (یہ جیت اس ہار کے بدلے میں ہے)) اس حدیث کو ابو داود رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
3- نشانہ بازی، چنانچہ صحیح بخاری: (3373) میں سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: "آپ صلی اللہ علیہ و سلم ایک بار بنی اسلم کے کچھ لوگوں کے پاس سے گزرے تو لوگ تیر اندازی کے ذریعے نشانے لگا رہے تھے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (بنو اسماعیل! تیر اندازی کرو، تمہارا جد امجد بھی تیر انداز تھا۔ نشانہ بازی جاری رکھو میں بنو فلاں کے ساتھ ہوں) تو اس پر ایک ٹیم نے تیر اندازی بند کر دی ، ان کا کہنا تھا کہ: اللہ کے رسول! ہم کیسے آپ کے خلاف تیر اندازی کر سکتے ہیں؟ تو اس پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (میں تم سب کے ساتھ ہوں)"
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ صحابہ کرام دوڑ، گھڑ دوڑ، اور فنونِ قتال کی مشقیں کیا کرتے تھے یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام نہایت جنگجو اور بہادر تھے۔
اس قسم کی چیزوں کی ماہیت ہر زمانے اور حالات کے اعتبار سے الگ ہوتی ہے۔
تیراکی کے بارے میں یہ ہے کہ:
نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ تو ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا: (ہر وہ چیز جس کا تعلق ذکر الہی سے نہیں ہے تو وہ "لعب" ہے۔ سوائے چار چیزوں کے: خاوند کا اپنی بیوی کے ساتھ کھیلنا، گھوڑے کے مالک کا اپنے گھوڑے کو سدھانا، آدمی کا دو نشانوں کے درمیان دوڑ لگانا، اور آدمی کا تیراکی سیکھنا) اس حدیث کو نسائی رحمہ اللہ نے "السنن الكبرى" (8889) میں روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے سلسلہ صحیحہ: (315) میں صحیح قرار دیا ہے۔
ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے عمل سے یہ کہیں نہیں ملا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے خود کبھی تیراکی کی ہو۔
لیکن جو الفاظ مشہور ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم دیا کہ اپنے بچوں کو تیراکی، تیر اندازی اور گھڑ سواری سکھاؤ، تو ان الفاظ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کوئی حدیث ثابت نہیں ہے۔
ایک حدیث میں کچھ اس طرح کے الفاظ ہیں کہ : (اپنے بیٹوں کو تیراکی اور تیر اندازی سکھاؤ، اور خواتین کو دھاگا بنانا سکھاؤ) یہ حدیث بھی سخت ضعیف ہے۔
مزید تفصیلات کے لیے آپ "السلسلة الضعيفة" از علامہ البانیؒ (3876، 3877) دیکھیں۔
واللہ اعلم