جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

اگر روزوں کی قضا مسلسل دینے کا ارادہ ہو تو کیا ایک ہی بار نیت کرنا کافی ہو گا؟

سوال

میرا اگر روزوں کی قضا مسلسل دینے کا ارادہ ہو تو کیا ایک ہی بار نیت کرنا کافی ہو گا؟ کہ ایک ہی بار ان تمام روزوں کی نیت پہلے دن ہی کر لی جائے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اہل علم کے دو اقوال میں سے راجح موقف کے مطابق  واجب روزہ قضا ہو یا ادا  ہر روزے کی نیت فجر سے پہلے کرنا ضروری ہے۔

اس کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی ہے: (جو شخص فجر سے پہلے روزے کی نیت نہ کرے اس کا روزہ نہیں ہے)اسے ابو داود : (2454) ،ترمذی:  (730) اور نسائی: (2331)  نے روایت کیا ہے اور نسائی کی ایک اور روایت کے الفاظ ہیں: (جو شخص فجر سے پہلے رات کو  نیت نہ کرے اس کا روزہ نہیں ہے) اس حدیث کو البانی  نے صحیح ابو داود میں صحیح قرار دیا ہے۔

اور جمہور فقہائے کرام اسی بات کے قائل ہیں کہ ہر دن کی الگ سے نیت کرنا ضروری ہے، چنانچہ صرف ابتدائے رمضان میں روزوں کی نیت کرنا کافی نہیں ہو گا، یا مسلسل روزے رکھنے کی صورت میں صرف پہلے روزے کی نیت کرناکافی نہیں ہے۔

جبکہ مالکی فقہائے کرام اس بات کے قائل ہیں کہ : جن روزوں کو تسلسل سے رکھنا واجب ہے ان میں پہلی بار کی ہوئی نیت کافی ہو جائے گی، جیسے کہ رمضان کے روزے ہیں، لیکن ایسے روزے جن میں تسلسل قائم رکھنا ضروری نہیں ہے تو ان کیلیے روزانہ الگ سے نیت کرنا ضروری ہے۔

چنانچہ موسوعہ فقہیہ : (275/40) میں ہے کہ:
"حنفی، شافعی اور حنبلی فقہائے کرام اس بات کے قائل ہیں کہ: جن روزوں میں تسلسل قائم رکھنا واجب ہے اگر ان میں فجر سے پہلے نیت نہ کی جائے تو اس سے تسلسل قائم نہیں رہتا، بلکہ تسلسل ٹوٹ جاتا ہے، مثلاً: کوئی شخص  عمدا نیت نہ کرے، نیز واجب امور بھول جانا ان کے ترک کے لئے عذر نہیں ہے۔

جبکہ مالکی فقہائے کرام کہتے ہیں کہ: جن روزوں کو تسلسل سے رکھنا واجب ہے ان میں ایک بار ہی نیت کافی ہے، جیسے کہ رمضان ، اور کفارے کے ایسے روزے جن میں تسلسل لازمی ہے" انتہی

اسی طرح فقہ مالکی کی کتاب:  "الخلاصة الفقهية على مذهب السادة المالكية" میں ہے کہ:
" ایسے روزے جن کو تسلسل سے رکھنا واجب ہے ان میں ایک بار ہی نیت کرنا کافی ہے، جیسے کہ رمضان  کے روزے، رمضان [میں دن کے وقت جماع کرنے] کا کفارہ، قتل کا کفارہ، ظہار کا کفارہ، اور تسلسل سے روزے رکھنے کی نذر جیسے کہ کوئی کسی پورے مہینے کے روزے رکھنے کی نذر مان لے۔۔۔ اور ایسے روزے جن میں تسلسل سے روزے رکھنا ضروری نہیں ہے بلکہ متفرق ایام میں بندہ روزے رکھ سکتا ہے تو ان میں ہر رات کو فجر سے پہلے نیت کرنا ضروری ہے، جیسے کہ رمضان کے روزوں کی قضا، سفر میں چھوڑے ہوئے روزوں کی  قضا، قسم کا کفارہ، فدیۃ الاذی[کسی بیماری کی بنا پر  احرام کی پابندی کی مخالفت کرنا اور پھر اس کے بدلے میں روزے رکھنا]، اور حج میں قربانی کے متبادل کے طور پر رکھے جانے والے روزے" انتہی

اس بنا پر :

اگر آپ نے رمضان کے روزوں کی مسلسل قضا دینے کی نیت کر لی ہے تو پھر اکثر اہل علم کے نزدیک روزانہ الگ سے نیت کرنی ہو گی۔

میں نے یہ سوال اپنے شیخ محترم عبدالرحمن البرّاک حفظہ اللہ  کے سامنے رکھا تو انہوں نے کہا:
"روزانہ نیت کرنا لازمی ہے، اور جو اہل علم رمضان میں  ایک ہی نیت سے روزے رکھنے کی اجازت دیتے ہیں ان کے ہاں  رمضان کے روزوں کی قضا  کا حکم رمضان کے روزوں والا نہیں ہے؛ کیونکہ شرعی اصول کے مطابق رمضان کے روزے تسلسل کے ساتھ رکھے جاتے ہیں[جبکہ روزوں کی قضا الگ الگ متفرق ایام میں دی جا سکتی ہے]" انتہی

ہم یہ بھی بتلاتے چلیں کہ اگر کسی شخص کے دل میں یہ بات آتی ہے کہ وہ صبح روزہ رکھے گا تو اس کی نیت ہو گئی۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اور جس شخص کے دل میں یہ بات آئی کہ وہ صبح روزہ رکھے گا تو اس کی نیت ہو گئی" انتہی
"الاختيارات الفقهية ضمن الفتاوى الكبرى "(4/ 459)

واللہ اعلم.

ماخذ: اسلام سوال و جواب