سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

کیا نفسیاتی امراض میں مبتلا شخص مکلف ہوتا ہے؟

سوال

مجھے ایک نفسیاتی مرض جسے " flat effect" کہتے ہیں، اس بیماری کی وجہ سے میں انسانی احساسات کھو بیٹھتا ہوں یعنی مجھ میں محبت، نفرت، غصہ، ترس اور شفقت جیسے احساسات پیدا نہیں ہوتے؛ اور اگر ہو بھی جائیں تو بالکل معمولی سے وقت کے لیے اور وہ بھی کبھی کبھار، مجھے اپنے والدین کے بارے میں اس قسم کے احساسات کا ادراک نہیں ہوتا، میرے ساتھ یہ معاملہ اس وقت سے شروع ہوا ہے جب میں صرف 15 سال کا تھا، میری اس بیماری کا علاج ابھی تک دریافت نہیں ہو سکا، اور اس بیماری کا مجھے ہمیشہ سامنا کرنا پڑے گا۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا میں شرعی احکامات کا مکلف ہوں یا نہیں؟ اور کیا مجھ پر نماز ، روزہ اور زکاۃ وغیرہ فرض ہیں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

یہ بات ذہن نشین کر لیں -اللہ تعالی ہماری اور آپ کی رہنمائی فرمائے- یکساں احساس یا طبی طور پر معروف انسانی کیفیت " flat effect " یہ نفسیاتی عارضہ ہے، بذات خود کوئی بیماری نہیں ہے۔

اس نفسیاتی عارضے کا دائرہ بہت وسیع ہے اس لیے ممکن ہے کہ آغاز میں شخصی اور ذاتی نوعیت کے نفسیاتی مسائل " personality disorders "پیدا ہوں اور آخر میں ذہنی انتشار سے متعلق مسائل " psychotic disorders " پیدا ہوں، البتہ آخر الذکر ذہنی عارضے میں نفسیاتی مسائل عام طور پر دائمی نوعیت کے ہوتے ہیں۔

بہ ہر حال اس عارضے میں پیش آنے والے نفسیاتی مسائل پر قابو پانا ممکن ہے خصوصی طور پر ایسے مسائل جو کہ " positive symptoms " کا باعث بنتے ہیں جیسے کہ ذہن میں کسی کے بارے میں منفی خیالات ابھرنا، یا کانوں میں کسی خاص قسم کا شور اور آوازیں محسوس کرنا حالانکہ کوئی شور اور آواز سرے سے ہو ہی نا، ایسی کیفیات کا علاج تسلسل کے ساتھ علاج سے ممکن ہے۔

بنیادی طور پر اصول تو یہ ہے کہ شخصی اور ذاتی نوعیت کے نفسیاتی مسائل " personality disorders " اور ذہنی انتشار سے متعلق مسائل " psychotic disorders " میں مبتلا شخص چونکہ شرعی احکامات کو سمجھتا بھی ہے اور جانتا بھی ہے اس لیے وہ ان احکامات کا مکلف ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ شرعی احکامات کے لاگو ہونے کا تعلق اور "اہلیت خطاب" عقل سے منسلک ہوتی ہے، احساسات اور وجدان سے نہیں!

کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (تین قسم کے لوگوں سے قلم اٹھا لی گئی ہے: سویا ہوا شخص یہاں تک کہ بیدار ہو جائے، نابالغ بچہ یہاں تک کہ وہ بالغ ہو جائے، اور پاگل شخص یہاں تک کہ وہ سمجھنے لگے۔) ترمذی: (1423) نے اسے روایت کیا ہے اور البانی نے اسے صحیح ترمذی میں صحیح قرار دیا ہے۔

تو جب تک انسان عاقل ہو، شرعی احکامات کے معنی اور مفہوم کو سمجھنے والا ہو تو وہ اس حکم کو ماننے کا مکلف ہے، چاہے وہ نفسیاتی طور پر مریض ہی کیوں نہ ہو، اور چاہے مکمل طور پر اس کے احساسات مفقود ہو چکے ہوں یا جزوی طور پر، شرعی احکامات اس پر لاگو ہوں گے۔

تاہم اگر کسی شخص کی نفسیاتی بیماری میں احساسات مفقود ہو جاتے ہیں تو اسے ان احساسات سے چھوٹ مل جائے گی جن کا اللہ تعالی نے حکم دیا ہے، مثلاً: والدین سے محبت اور نیکی کرنے پر خوشی ، یا کافروں سے نفرت اور گناہوں بے رغبتی وغیرہ۔

اگر اس نفسیاتی مرض کی وجہ سے مریض کی عقل اور سمجھ بوجھ قائم رہتی ہے زائل نہیں ہوتی تو اس پر نماز اور روزہ ادا کرنا لازمی ہے؛ کیونکہ وہ شخص ابھی بھی مکلف ہے۔

لیکن اگر اس مرض کی وجہ سے اس کی عقل کبھی زائل ہو جاتی ہے اور کبھی اسے ہوش آ جاتا ہے تو پھر عقل زائل ہونے کے وقت وہ شخص شرعی احکامات سے آزاد ہے، اور جس وقت ہوش آ جائے تو پھر اس کا عذر ختم ہونے کی وجہ سے شرعی احکامات کا پابند ہو جائے گا، اور حاضر نماز ادا کرنے کا پابند ہو گا، اور ساتھ میں عقل زائل ہونے کی صورت میں فوت شدہ نماز کی قضا بھی دے گا۔

مثلاً ایک شخص کو انتہائی شدید نوعیت کے ذہنی انتشار کے مسائل " delusions" اور " mania" وغیرہ جیسے لاحق ہو جاتے ہیں تو وہ ایسے ہی کرے گا۔

یہ بات واضح رہے کہ زکاۃ بچے، مجنون اور عارضی طور مفقود العقل ہونے والے تمام افراد پر جمہور فقہائے کرام کے نزدیک واجب ہے، تاہم احناف اس پر زکاۃ واجب ہونے کے قائل نہیں ہیں۔ وجوب کے قائلین میں الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ شامل ہیں انہوں نے اسی موقف کو اختیار کیا ہے، جیسے کہ الشرح الممتع ( 6/14 ) میں موجود ہے۔

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر : (75307 ) کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔

اللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب