الحمد للہ.
وصیت دو قسم کی ہوتی ہے:
واجب وصیت: اس سے مراد وہ وصیت ہوتی ہے جو آپ پر کسی کے حقوق ہیں اور اصحاب حقوق کے پاس اپنا حق ثابت کرنے کے لیے کوئی ثبوت بھی نہیں ہے، مثلاً: آپ نے کسی کا قرض دینا ہے، یا آپ کے پاس کسی کی امانت پڑی ہے، کل قیامت کے دن بری الذمہ ہونے کے لیے اس کی وصیت کرنا ضروری ہوتا ہے۔
مستحب وصیت:
یہ خالصتاً صدقہ ہوتا ہے، مثلاً: انسان یہ وصیت کر جائے میرے مرنے کے بعد ایک تہائی یا اس سے کم ترکہ کسی غیر وارث رشتے دار یا کسی اور کو دے دیا جائے، یا پھر رفاہِ عامہ یا غریب اور مساکین پر صدقہ کر دیا جائے۔
دیکھیں: "فتاوى اللجنة الدائمة" (16/264)
انسان اپنے جنازے کے متعلق امور کے بارے میں بھی وصیت کر سکتا ہے، مثلاً: غسل کون دے؟ جنازہ کون پڑھائے وغیرہ، اسی طرح انہیں ممنوعہ کاموں سے روک بھی سکتا ہے کہ نوحہ وغیرہ نہیں کرنا۔
اس کی دلیل صحیح مسلم میں ہے کہ سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے مرض الوفات میں فرمایا تھا کہ: (جب میں فوت ہو جاؤں تو نوحہ گر اور آگ میرے جنازے میں نہ ہوں)
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (69827) اور (10447) کا جواب ملاحظہ کریں۔
اسی طرح اگر کوئی خاتون اپنے خاوند کو اپنے بارے میں حسن ظن کی وصیت کرے، اور اگر اس کی طرف سے خاوند کی کوئی حق تلفی ہوئی ہو تو اس کی معذرت کر لے اور معافی مانگ لے، تو ان تمام امور کے لیے کوئی خاص عبارت اور تحریر نہیں ہے۔ انسان کو اپنے اور اپنے اہل خانہ کے حالات کے مطابق وصیت کرنے کی اجازت ہے، وصیت میں اپنے ذمے اور دوسروں کے ذمے حقوق اور واجبات بیان کرے، یہ بھی جائز ہے کہ اپنی وصیت پڑھنے کے لیے کسی ایک خاص شخص کو متعین کر دے کہ میری وفات کے بعد وہی اس کو کھولے اور پڑھے۔
خاتون اپنے ترکے میں سے خاوند کے لیے کوئی وصیت نہیں کر سکتی؛ کیونکہ اگر آپ ان سے پہلے فوت ہو جاتی ہیں تو شرعی طور پر انہیں آپ کے ترکے میں سے حصہ ملے گا اس حصے کی مقدار اولاد نہ ہونے کی صورت میں نصف ترکہ ہے۔
حدیث شریف میں بھی ہے کہ : اللہ تعالی نے ہر صاحب حق کو اس کا حق دے دیا ہے، اس لیے کسی بھی وارث کے لیے وصیت نہیں ہو سکتی۔
آپ کے والدین چونکہ فوت ہو چکے ہیں، تو خاوند کے حصے کے بعد بقیہ ترکہ آپ کے بھائیوں میں تقسیم ہو گا اور اس کے لیے مرد کو عورت سے دگنا دیا جائے گا۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (106236) کا جواب ملاحظہ کریں۔
چونکہ انسان کو نہیں معلوم ہوتا کہ اس کی وفات کب ہو گی؟ کیونکہ کتنے ہی صحت مند لوگ اچانک بغیر کسی بیماری سے فوت ہو جاتے ہیں، اور کتنے ہی بیمار لوگ لمبی زندگی پا جاتے ہیں۔
اس لیے آپ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنے خاوند کے ساتھ حسن سلوک کریں، ان کے ساتھ اچھے طریقے سے زندگی گزاریں، لیکن انتہا درجے کی اسراریت اور خاموشی سے اجتناب کریں؛ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ اور آپ کے خاوند کا تعلق سرد مہری میں پڑ جائے، جس کے نتیجے میں ایک دوسرے کے حال احوال لینا اور راتوں میں بیٹھ کر باتیں کرنا ختم ہو گیا تو پھر آپ ایک دوسرے سے مزید دور ہوتے چلے جائیں گے۔
ایسے معاملات میں درمیانی راہ اختیار کرنا ہی اچھا اور بہترین عمل ہے۔
آپ کے لیے نصیحت یہ ہے کہ اپنے خاوند سے فوری معذرت کر لیں، ان کے مرنے کا انتظار مت کریں۔
ابھی اٹھیں اور معذرت کریں، اپنے خاوند کا بھر پور خیال کریں، انہیں راضی رکھنے کی پوری کوشش کریں؛ کیونکہ یہ جنت میں داخلے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔
واللہ اعلم